Tuesday, November 24, 2015

بہاول پور کا چولستان قلعہ ڈراور

وہ ایک مشت خاک کہ صحرا کہیں جسے ! قلعہ ڈیراور چولستان کا گیٹ وے

ایم اقبال انجم سے

قدیم تاریخ سے سرائیکی وسیب کی اپنی منفرد شناخت اور پہچان ہے۔ روہی تھل ، دامان او رکچھی کے علاقے اس کے دلفریب رنگ ہیں۔ فطرتی حسن، دریا اور صحرا اس کی اہمیت کو نمایاں کرتے ہیں۔ صوفیاء کی یہ دھرتی اپنے سینے پر آثار قدیمہ اور لوک ورثہ کے کئی نایاب اور الگ نشان رکھتی ہے۔ اس دھرتی کا مرکز ملتان اپنی قدامت کے حوالے سے پوری دنیا میں اپنا تعارف رکھتا ہے۔ روہی، چولستان اور تھل نہ صرف اپنا اپنا لوک ادب، ریت روایت اور موسمی تغیرات کے حوالے سے جانے پہچانے جاتے ہیں بلکہ یہاں پر بعض آثارِ قدیمہ سرائیکی دھرتی کی تاریخی اہمیت کو اجاگر بھی کرتے ہیں۔ ان آثار قدیمہ میں ایک ’’قلعہ ڈیراور ‘‘بھی ہے۔ بہت سے لوگ اسے قلعہ دراوڑ کے نام سے بھی پکارتے ہیں جو کہ غلط العام ہے،تاہم اس کا ایک تلفظ ڈیر اول بھی ہے۔ احمد پور شرقیہ سے نکلتی ایک ٹوٹی پھوٹی سنگل سڑک سیدھی قلعہ ڈیراور کو جاتی ہے۔ یہ قلعہ یزمان نامی شہر میں موجود ہے۔ یہیں سے چولستان کا آغاز ہوتا ہے، چولستان میں چالیس سے زائد تاریخی قلعے اور دیگر تاریخی مقامات ہیں جن میں قلعہ ڈیراور نقش اولین ہے۔ اسی پس منظر میں اس قلعے کو چولستان کا ’’ گیٹ وے‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ قلعہ ڈیراور اپنی ساخت اور فن تعمیر میں منفرد اور نرالی شان والی پرشکوہ عمارت ہے۔ فنکارانہ انداز میں گولائی میں بنائی گئی اس کی بلند وبالا دیواریں ہر ناظر کو متوجہ کرتی ہیں۔ اس کی شان وشوکت او رجاہ وجلال بتاتا ہے کہ کسی زمانے میں یہاں کوئی بڑی سج دھج اور ذوق والا بادشاہ حکومت کرتا ہوگا۔ اس قلعے کی بلندوبالا فصیلیں وقت کے کئی نشیب وفراز، جنگ وجدل کے دلخراش واقعات اور فتح وشکست کے مناظر کی چشم دیدگواہ ہیں۔ اس کے درودیوار میں کئی راز دفن ہیں۔ ہماراا لمیہ دیکھیے کہ ہم میں سے یہ کوئی نہیں جانتا کہ کس نے او رکب اس کا سنگ بنیاد رکھا؟ اس حوالے سے تاریخ محوخواب ہے۔ کہتے ہیں کہ صدیوں پہلے اسے کسی بھٹی ذات کے مہاراجے نے تعمیر کروایا تھا جبکہ ایک اور روایت کے مطابق یہ قلعہ جیسلمیر کے شہزادے’’دیوراول سنگھ بھاٹیہ‘‘ نے پانچ ہزار سال قبل وسطی ایشیاء اورہندوستان کے درمیان تجارتی اشیاء کی حفاظت کی غرض سے تعمیر کروایا تھا۔ یہ قلعہ زیادہ عرصہ تک راجستھان کے راجپوت حکمرانوں کے پاس رہا۔1735ء کے لگ بھگ بہاول پور کے عباسی حکمرانوں نے اسے اپنے قبضے میں لے کر دارالحکومت کا درجہ دیا۔ قلعے کی موجودہ پختہ عمارت اسی دور میں تعمیر کی گئی تھی۔ قلعے کی بیرونی دیواروں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہیں تعمیر کرنے کی غرض سے اینٹیں خصوصی طور پر اُچ شریف سے منگوائی گئی تھیں کیونکہ اُچ شریف اولیاء اللہ کی سرزمین سمجھی جاتی ہے۔ اسی لئے کام کرنے والے مزدوروں نے عقیدت کے طور پر اینٹوں کو ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ تک لاتے ہوئے قلعے تک پہنچایا تھا۔1744ء میں شکار پور کے نواب نے عباسیوں سے یہ قلعہ چھین لیا تھا ،لیکن1804ء میں عباسی نواب مبارک خان نے قلعہ ڈیراول پر دوبارہ اپنا تسلط جمالیا۔1804ء سے لیکر ایک عرصہ تک یہ قلعہ عباسی نوابوں کی ملکیت رہا(بحوالہ کافر کوٹ سے قلعہ ڈیراول تک از غلام عباس سیال)۔ عباسی خاندان کے نامور فرمانروا نواب صادق خان عباسی کے عہد تک اس قلعے کی برابر دیکھ بھال اور مرمت کی جاتی رہی، مگر بعد میں نکمے او ربے حس نوابوں نے اس پر کوئی توجہ نہ دی، جس سے اس کی حالت مخدوش ہوتی گئی۔قلعہ کا داخلی دروازہ لکڑی اور لوہے سے اپنی تشکیل پاتا ہے یہ دروازہ بلندی پر نصب کیا گیا ہے ،جہاں کھڑے ہوکر ہم گردونواح کا جائزہ لے سکتے ہیں او ریہیں سے نوابوں کے قبرستان کا مشاہدہ بھی کیا جاسکتا ہے۔یہ قبرستان نوابوں کی شان و شوکت اور خود نمائی کی دلیل ہے۔ کچھ ہی فاصلے پر ایک شاندار مسجد ایستادہ ہے، جو کسی حد تک لاہور کی بادشاہی مسجد اور دہلی کی موتی مسجد کی یاد دلاتی ہے۔ یہ مسجد نواب بہاول خان نے 1849ء میں تعمیر کروائی تھی، اس کی کشادگی اور فن تعمیر سے نکھرتاحسن نوابوں کی اسلام سے وابستگی کا پتہ بھی دیتا ہے۔ قلعے کے گردونواح میں کچے مکانوں کے کھنڈرات کسی ایسی داستان کی یاد دلاتے ہیں جس میں’’ظالم دیو‘‘ نے آبادی کو ہڑپ کرلیا ہو اور چہار سوسناٹوں کا بسیرا ہو۔ قلعے کی بلند وبالا فصیلوں کے اند رجگہ جگہ گڑھے، ٹوٹی پھوٹی بکھری اینٹیں او رپراسرار اور دل دہلا دینے والے مناظر میں نواب محل، پھانسی گھاٹ، جیل خانہ، سرنگیں، خستہ سیڑھیاں، کھنڈرات کا روپ دھارچکی ہیں۔ نواب محل میں بلندی پر تعمیر کی گئی عمارت میں جو حصہ ہے وہاں کی کھڑکیوں اور بالکونیوں (Bolconies) سے صحرا کا منظر دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ شاہی حصہ، شاہی قلعہ لاہور شاہی محل کے مشابہ ہے۔ اس کی چھت کا اندرونی نظر نقش اور پچی کاری سے مزین ہے۔ قلعے کے کھلے دالان میں دوخستہ توپیں اور چند نامعلوم لوگوں کی قبریں بھی موجود ہیں۔ سارے کا سارا قلعہ اتنی بے توجہی کا شکار ہے کہ نہ تو یہاں پر کوئی محافظ، نہ پانی کا انتظام اور نہ ہی قلعے سے متعلق کوئی ایسی تحریر ہے جس سے سیاح اس سے متعارف ہوسکیں۔ داخلی دروازے کی چابی نواب کے کسی ملازم کے پاس رہتی ہے، جو نذرانہ لے کر اسے کھولتا ہے۔ دروازے میں داخل ہوتے ہی آپ کا استقبال چمگاڈریں کریں گی، چمگادڑوں کا یہ حال ہے کہ اس دروازے کی دیواروں او رچھت پر گویا چمگادڑوں کا لیپ کردیا گیا ہو، قلعے کے اندر کمروں میں بھی یہی حالت ہے او راتنی ناگوار بدبو ہوتی ہے کہ الامان۔ قلعے کا اندرونی منظر شہنشاہوں اور نوابوں کے جاہ وجلال کی خبردیتا ہے۔چاندنی سے لطف اندوز ہونے کی الگ جگہیں تو چولستان کی وسعتوں سے دل لبھانے کے الگ مقام، نوکروں چاکروں اور قیدیوں کے لئے الگ عمارتیں اور آرام دہ خواب گاہیں الگ مگر ہنستے بستے اور پر رونق اس قلعے کی موجودہ حالت زار ہر آنے جانے والوں کو اشکبار کردیتی ہے لمحہ موجود میں یہ قلعہ فقط چمگادڑوں کا رین بسرابن کر رہ گیا ہے، بعض کمروں میں اُگنے والی جھاڑیاں تناور درخت بن کر کمروں کی چھتوں کو بھی کراس کرگئی ہیں۔بین کرتی قلعے کی مجموعی شخصیت اپنے لاوارث ہونے کی دہائی رہی ہے۔ اس کا مالک نواب صلاح الدین عباسی، جس کو شاید اب اپنے خاندانی وقار کا احساس بھی نہیں رہا،اگر اس قلعے کو رونق بخش دے، تو ہمیشہ کے ایک کے لئے اس کا نام تاریخ میں امر ہوجائے گا۔ سنا ہے یو اے ای کی حکومت نے نواب صاحب سے قلعے کو پندرہ برس کے لئے لیز پر لینے کی درخواست کی ہے مگر ڈرا سہما مصلحت پسند یہ نواب خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے۔ اگر یہ قلعہ یو اے ای کے پاس کچھ عرصے کے لئے چلا جائے تو اس کی حالت سنورسکتی ہے۔ نہیں تو آنے والی نسلیں اس کا ذکر حرف کتاب اور لوک گیتوں 

Wednesday, November 18, 2015

کیٹی بندر کے بارے میں سیدہ تحسین فاطمہ کا تہلکہ خیز انکشاف

میلوں تک پھیلے ویرانے، سوکھی ہوئی جھاڑیاں اور آنکھوں میں حیرت اور تجسس لیے چند بچّے، جنھیں دیکھ کر یہ یقین کرنا مشکل لگتا ہے کہ انڈس ڈیلٹا کا یہ علاقہ کبھی زرخیز تھا۔۔
دنیا کی آب و ہوا تیزی کے ساتھ تبدیل ہو رہی ہے۔ پاکستان بھی اس ماحولیاتی تبدیلی سے دوچار ہے۔ خاص طور پر انڈس ڈیلٹا میں واقع ہونے والی تبدیلیاں اس کے اردگرد آباد سینکڑوں لوگوں کی زندگی کے لیے خطرہ بن رہی ہیں۔
کیٹی بندر پر سمندر دریائے سندھ کو نگل رہا ہے۔نمکین پانی میٹھے پانی کو دہکیلتا ہوا اوپر چڑھا چلا آ رہا ہے ۔جو صرف علاقے کا نقشہ ہی تبدیل نہیں کر رہا بلکہ ساحل کے اردگرد آباد ہزاروں مچھیروں کے خاندانوں کے لیے شدید خطرہ بن چکا ہے۔
کیٹی بندر پر واقع ایک گاؤں اللہ ڈنو پٹیل میں جھونپڑیوں میں رہنے والے چند خاندان یہاں کی  بربادی اور بدحالی کی جیتی جاگتی مثال ہیں
نوجوان زاہدہ اپنے شوہر اور دو بچوں کے ساتھ ایک ایسے گھر میں رہتی ہے جو زندگی کی تمام تر بنیادی سہولتوں سے محروم ہے، وہ اپنے بچوں کے مستقبل سے کچھ زیادہ پر امید نہیں ۔ زاہدہ کے جھونپڑے کے قریب ہی اس کے کچھ رشتے دار بھی مقیم ہیں۔ مرد روزی کی تلاش میں گھر سے باہر گئے ہوئے تھے۔

 یہاں کی آبادی کی آمدنی کا اسی فیصدخوراک پر خرچ ہو جاتا ہے۔ اس صورتحال میں سب سے زیادہ متاثر عورت ہے

یہاں کی آبادی کی آمدنی کا اسی فیصدخوراک پر خرچ ہو جاتا ہے۔ اس صورتحال میں سب سے زیادہ متاثر عورت ہے
سمندر نے ان کے گاؤں کو دھکیل کرجتنی دور پھینکا ان کا ذریعہ معاش مچھلیاں بھی ان سے اتنی ہی دور ہو گئیں ۔ زمیں کی زرخیزی ختم ہو چکی ہے۔ یہاں اب کچھ نہیں اگتا۔ بستر پر بیٹھی امیر زادی نے سالوں سے سبزی نہیں کھائی۔ اردگرد کوئی پھل دار یا سایہ دار درخت نظر نہیں آتا۔ دانہ چگتی مرغیوں پر نظر ڈالتے ہوئے میں نے پوچھا کہ مرغیاں فروخت کرنے کے لیے پالتے ہیں یا اپنے کھانے کے لیے تو معلوم ہوا کہ یہ مرغیاں مہمانوں کے لیے پالی جاتی ہیں۔کبھی کبھی گھر والے بھی کھا لیتے ہیں۔ میں نے گائے اور بکرے کے گوشت کی بابت دریافت کیا تو مجھے بتایا گیا کہ زمین کی زرخیزی ختم ہونے کے سبب جانوروں کے لیے چارہ تک نہیں اگایا جا سکتا۔ کھانے کے لیے صرف مچھلی ہے۔ نہ سبزی نہ گائے بکرے کا گوشت اور نہ ہی دودھ میسر ہے۔
یہاں کی آبادی کی آمدنی کا اسی فیصدخوراک پر خرچ ہو جاتا ہے۔ اس صورتحال میں سب سے زیادہ متاثر عورت ہے۔ جو سندھ کی روایات کے مطابق خوراک کا بہترین حصہ شوہر اور بیٹوں کو دینے کی عادی ہے۔ کچھ بچ جائے تو وہ کھا لیتی ہے۔
عالمی بینک کے ایک جائزے کے مطابق ساحلی علاقوں میں رہنے والے مچھیروں کے خاندان کی خوراک دالوں، سبزی، دودھ اور گوشت سے محروم ہے۔اکثرچاول، پیاز اور مرچ ہی پر گزارا کیا جاتا ہے۔دودھ ، گوشت اور سبزیاں میسر نہ آنے کے سبب عورتیں اور بچے غذائی قلت اور خون کی کمی کا شکار ہو رہے ہیں۔

 دریائے سند ھ کے کنارے صدیوں سے آبادمچھلی پکڑنے کے پیشے سے وابستہ ان خاندانوں کو غذا کی قلت نے بڑے پیمانے پر نقل مکانی پر مجبور کر دی

دریائے سند ھ کے کنارے صدیوں سے آبادمچھلی پکڑنے کے پیشے سے وابستہ ان خاندانوں کو غذا کی قلت نے بڑے پیمانے پر نقل مکانی پر مجبور کر دی

انیس سو نوے کی دہائی تک ضلع ٹھٹھہ میں بہترین دودھ دینے والی بھینسیں اور گائے وافر تعداد میں موجود تھیں ۔اس کے علاوہ بھیڑ،بکری، اونٹ، گھوڑے اور خچر بھی دستیاب تھے۔ مگر میٹھے پانی کی عدم دستیابی اور کھیتی باڑی کے لیے موزوں زمینیں نہ ہونے کی سبب جانوروں کی خوراک اور چارے کی قلت ہونے لگی۔۔جس کی وجہ سے رفتہ رفتہ انڈس ڈیلٹا کے قریب ان جانوروں کی زندگی ختم ہونے لگی۔

کیٹی بندر پر واقع ایک گاؤں اللہ ڈنو پٹیل میں جھونپڑیوں میں رہنے والے چند خاندانوں سے یہاں کی بربادی اور بدحالی کی جیتی جاگتی مثال ہے۔
کیٹی بندر پر واقع ایک گاؤں اللہ ڈنو پٹیل میں جھونپڑیوں میں رہنے والے چند خاندانوں سے یہاں کی بربادی اور بدحالی کی جیتی جاگتی مثال ہے۔
دریائے سند ھ کے کنارے صدیوں سے آبادمچھلی پکڑنے کے پیشے سے وابستہ ان خاندانوں کو غذا کی قلت نے بڑے پیمانے پر نقل مکانی پر مجبور کر دیا، مگر اب بھی بہت سے ایسے ہیں جو مشکلات جھیل کر بھی اس زمین سے اپنی محبت کے سبب وہیں آباد ہیں۔
فشر فوک فورم کے محمد علی شاہ کا کہنا ہے کہ انڈس ڈیلٹا کی تباہی کا ایک بڑا سبب مینگروز درختوں کی کٹائی ہے۔ محمد علی شاہ نے حکومت کو توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ مینگروز لگانے سے زیادہ ان کی حفاظت ضروری ہے۔ یاد رہے کہ حکومت دو بار یہاں مینگروز لگانے کا عالمی رکارڈ قائم کرچکی ہے۔

Tuesday, November 17, 2015

. خیرپورٹامیوالی حوا کی بیٹی اغوا ہوئی درندے چار ماہ تک اس کی عزت لوٹتے رہے ویڈیو فلم بنا کر نیٹ پر چڑھا دی گئ

متاثرہ پروین مائی کا نمبر۔ 0306.3134536 .03012626586
SHOخیرپورٹامیوالی مہرممتاز حسین۔0300 8770790 
بہاول پور(رپورٹ ایم اقبال انجم سے)
خیرپورٹامیوالی میں ظلم وجبرتشدد اور انسانی حقوق کی پامالی کی ہولناک داستان سامنے آگئی حوا کی بیٹی اغوا ہوئی درندے چار ماہ تک اس کی عزت لوٹتے رہے ویڈیو فلم بنا کر نیٹ پر چڑھا دی گئی زنجیروں سے باندھ کر قید رکھاگیا بھاگنے پر ایک ٹانگ بھی توڑ دی گئی عدالت ایڈیشنل سیشن جج کے حکم سے مقدمہ درج ہوا مگرقانون کے رکھوالے بک گئے ملزمان آزاد ہوگئے متاثرہ انصاف کیلئے دربدر میڈیا آفس پہنچ گئی اور اپنے اوپر گزرنے والے تمام واقعات سے دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ پردہ اٹھا دیا ۔ 
خیرپورٹامیوالی میں بھی حوا کی بیٹی پر ظلم وتشدد بربریت اور انسانی حقوق کی پامالی کی ہولناک داستان سامنے آگئی چار ماہ قبل 10مسلح آفرادنے اپنے 5اور نامعلوم ساتھیوں کے ہمراہ محلہ وڈیرہ سے ایک 27سالہ شادی شدہ خاتون پروین مائی زوجہ ریاض احمد کو زبردستی اغوا کر کے لے گئے اور لڈن وہاڑی جاکر اپنے 3اور ساتھیوں کرم خاں۔فریدخاں۔اورعباس ۔کے حوالے کردیا جو اسے ایک کمرے میں بند کر کے مسلسل پونے چار ماہ تک باری باری اجتماعی زیادتی کا نشانہ بناتے رہے برہنہ کرکے ویڈیو فلمیں بھی بنائی گئیں تشدد بھی کرتے رہے زنجیروں سے باندھ کر قید کر کے رکھا گیا متاثرہ نے ایک دن بھاگنے کی کوشش کی تو اس کی ایک ٹانگ بھی ان درندوں نے توڑ ڈالی چار ماہ بعد متاثرہ خاتون کسی طرح ٹوٹی ہوئی ٹانگ کے ساتھ اس گھر سے فرار ہوکر کسی اور شخص کی مدد سے اپنے گھرخیرپورٹامیوالی پہنچی اور میڈیکل بنواکر ایڈیشنل سیشن جج کو اپنے اوپر گزرنے والے ظلم وستم کی داستان سنائی پولیس نے ایڈیشنل سیشن جج کے حکم پر ملزمان کے خلاف 297/15مقدمہ درج کرلیا مگر تھانہ انچارج انسپکٹر مہر ممتاز ملزمان سے مل گیا اور 10لاکھ روپئے رشوت لے کر لیگی ایم پی اے کی ایماء پر ملزمان کو اسی وقت بے گناہ قرار دے کر 4روز کے اندر مقدمہ ہی خارج کردیا اور الٹا متاثرہ خاتوں کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں اور ان کے بھائیوں سمیت رشتہ داروں کے خلاف جھوٹا مقدمہ بھی درج کردیا متاثرہ آج اپنے تمام دستاویزی ثبوتوں کے ہمراہ میڈیا آفس پہنچی اور روتے ہوئے تمام داستان سنائی اور بتایا کہ ملزمان پولیس مجھے قتل کرنا چاہتی ہے مجھے میڈیا کے ذریعہ ہی اعلیٰ حکام سے انصاف دلایا جائے وگرنہ ڈی پی او آفس بہاول پور کے سامنے جاکر میں خودسوزی کرلونگی

Wednesday, November 11, 2015

جھنگ کے ممتاز صحافی صدیق صادق کی اہلیہ وفات پاگئیں

پریس ریلیز
ممتا ز سینئر صحافی میاں صدیق صادق کی اہلیہ مختصر علالت کے بعد انتقال پا گئیں۔ نماز جنازہ میں ہر مکتبہ فکر کے سینکڑوں افراد کی شرکت ۔مرحومہ کی روح کو ایصال ثواب کیلئے رسم قل و قرآن خوانی آج ہو گی
جھنگ ( ):ممتا ز سینئر صحافی، قومی انگریزی روزنامہ کے سٹاف رپورٹر ، سابق صدر جھنگ یونین آف جرنلسٹس و پریس کلب جھنگ میاں صدیق صادق کی اہلیہ مختصر علالت کے بعد انتقال پا گئیں۔ مرحومہ کی نماز جنازہ بدھ کی صبح لولہے شاہ قبرستان جھنگ صدر کی جناز گاہ میں ادا کی گئی جس میں انتظامی افسران ، ارکان اسمبلی ،الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا سے تعلق رکھنے والے صحافیوں ، آفیشل میڈیا کے نمائندگان ، محکمہ تعلقات عامہ کے حکام ، وکلاء ، علماء ، دانشوروں ، صنعتکاروں ، تاجروں ، اساتذہ اور سول سوسائٹی کے ہر مکتبہ فکر کے سینکڑوں افراد نے شرکت کی ۔بعد ازاں مرحومہ و مغفورہ کو اشکبار آنکھوں کے ساتھ ان کے آبائی قبرستان لولہے شاہ جھنگ میں سپرد خاک کردیا گیا۔ مرحومہ کی روح کو ایصال ثواب کیلئے رسم قل و قرآن خوانی آج جمعرات کی صبح 8بجے جامع مسجد تقویٰ محلہ سلطان والا جھنگ صدر میں ادا کی جائے گی۔ دریں اثناء ڈپٹی ڈائریکٹر محکمہ تعلقات عامہ جھنگ سرفراز اللہ خان ، چیئرمین پریس کلب لیاقت علی انجم،وائس چیئرمین صاحبزادہ ذاکر رحمن، سیکرٹری خرم سعید شیخ ، صدر جھنگ یونین آف جرنلسٹس منظور عابد کھرل ،جنرل سیکرٹری ریاض نول ،ممتاز پارلیمنٹیرین سیدہ عابدہ حسین ، ممبر قومی اسمبلی شیخ محمد اکرم ، ممبران صوبائی اسمبلی راشدہ یعقوب شیخ ، خالد محمودسرگانہ ، چوہدری خالد غنی ، نواب خرم خان سیال، جھنگ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر محمد عمر رامے ، ضلعی انجمن تاجران جھنگ کے صدر حاجی محمد علی ، جنرل سیکرٹری حاجی دلدار علی ، ریجنل یونین آف جرنلسٹس کے سینئر نائب صدر کلیم اللہ لودھی ، محلہ سلطان والا سے جنرل کونسلر کیلئے لیگی امیدوار ملک محمد فاروق اور دیگر اہم سیاسی ، دینی ، مذہبی شخصیات نے میاں صدیق صادق کی اہلیہ محترمہ کی ناگہانی وفات حسرت آیات پر گہرے دکھ ، دلی رنج و غم اور افسوس کااظہار کیاہے۔ انہوں نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ مرحومہ و مغفورہ کو جنت الفردوس کے حسین گوشوں میں جگہ سمیت ان کے پسماندگان کو یہ صدمہ جانکاہ ہمت و استقامت سے برداشت کرنے اور صبر جمیل کی توفیق عطافرمائے۔####

Thursday, November 5, 2015

پولیس اور ریونیو نے خیرپورٹامیوالی کی بستی گڈن میں بستی گرادی عورتوں پر تشدد کیا

بہاول پور(رپورٹ ایم اقبال انجم سے) خیرپورٹامیوالی کی نواحی بستی غریب آباد داودپورہ گڈن میں پولیس گردی لاقانونیت ظلم وتشدد بربریت کی اہم
 داستان سامنے آگئی لیگی ایم پی اے کی ایماء پر اسسٹنٹ کمشنر رینیو عملہ اور پولیس کی بھاری نفری نے 30سالوں سے آباد غریبوں کی بستی پر حملہ کردیا عورتوں بچوں بوڑہوں پرتشدد کی انتہاء کردی کچے مکانات گرادئیے قرآن پاک بھی شہید کردیئے گئے ظلم بڑہتا گیا خواتین چیختی چلاتی رہیں شیرجوان ڈنڈے برساتے رہے کوئی بھی مدد کو نہ آیا ایک صحافی کو بھی کوریج کرنے پر پولیس نے دھلائی کردی کیمرہ چھین لیا جماعت اسلامی کے نائب امیر موقع پر پہنچے اور متاثرین کے ساتھ احتجاج کیا ۔

تفصیل کے مطابق کے مطابق خیرپورٹامیوالی کی نواحی بستی غریب آباد داودپورہ گڈن کی سرکاری اراضی پر 30سال قبل وڈیروں جاگیرداروں کے ظلم وستم سے تنگ آئے غریب لوگ آباد ہوگئے اور 100کے قریب کچے مکان بنا کر اپنی زندگی کے دن کاٹ رہے تھے کہ 2004میں یسینٰ ترک اور اس کا بھائی محکمہ مال سے سازباز کر کے جعلسازی سے 30ایکڑ اراضی الاٹ کر الی اور آج لیگی ایم پی اے کی آشیرباد سے پولیس محکمہ مال کے اعلیٰ افسران اسسٹنٹ کمشنر میڈم سعدیہ مہر اور ڈی ایس پی سعید احمد چوہدری کی سربراہی میں بھاری نفری لے کر داودپورہ پہنچا اور مکینوں پر اچانک حملہ کردیا پولیس اور ریونیو عملہ نے عورتوں بچوں بوڑہوں پر تشددکیا کچے مکانات گرادیئے اندر پڑے قرآن پاک بھی شیہد ہوگئے خواتین خدا اور رسول کے واسطے دیتی رہیں مگر شیرجوان چیختی چلاتی عورتوں پر ڈنڈے برساتے رہے ااور گھریلوسامان بھی توڑ دالا اس دوران ایک اخبار کے رپورٹر محمدفاروق کمبوہ کو واقعہ کے فوٹو بنانے پر بھی پولیس نے دھلائی کردی اور کیمرہ چھین لیا جب پولیس اور ریونیو عملہ چلا گیا تو جماعت اسلامی کے مقامی راہنماء قاری سعیداحمد سندھڑ موقع پر پہنچے اور متاثرین کے ساتھ احتجاج کیا اور اعلیٰ حکام سے فی الفور نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔

Monday, October 26, 2015

زلزلے سے پاکستان میں ہلاکتیں 206 ہوگئیں 1300 سے زائد زخمی

پاکستان میں آفات سے نمٹنے کے قومی ادارے این ڈی ایم اے کا کہنا ہے کہ پیر کو آنے والے زلزلے کے نتیجے میں ہلاکتوں کی مجموعی تعداد 206 تک پہنچ گئی ہے جبکہ کم سے کم 1381 افراد کے زحمی ہونے کی اطلاع ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ زلزلے سے سب سے زیادہ نقصان خیبر پختونخوا کے مالاکنڈ ڈویژن میں ہوا ہے۔
انھوں نے کہا کہ زلزلے سے شاہراہ قراقرام پانچ مقامات پر بلاک ہو گئی ہے۔
سب سے زیادہ نقصان اب تک صوبہ خیبر پختونخواہ میں ہوا ہے جہاںمرنے والوں کی تعداد 160 سے تجاوز کر گئی ہے۔۔ اس کے بعد فاٹا سے کم سے کم 30 افراد کی ہلاک کی اطلاع ہے۔
ریکٹر سکیل پر اس زلزلے کی شدت 7.5 تھی اور اس کا مرکز ہندو کش کا پہاڑی علاقہ ہے جو کہ ڈسٹرکٹ جرم کے جنوب مغرب میں 45 کلومیٹر دور واقع ہے۔
پاکستان کے زلزلہ پیما مرکز کا کہنا ہے کہ زلزلہ پاکستانی وقت کے مطابق 2:09 منٹ پر آیا۔ زلزلے کی وجہ سے مختلف علاقوں میں کچے مکانات منہدوم ہو گئے ہیں۔
صوبہ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلی پرویز خٹک نے میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ صوبے کے مختلف علاقوں میں ہونے والے نقصان کے متعلق معلومات اکھٹی کر ر ہے ہیں۔ وزیر اعلی کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت کسی بھی ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے تیار ہے۔
پاکستان کے صوبے پنجاب کے ریسکیو ذرائع کے مطابق صوبے میں زلزلے کے نتیجے میں پانچ ہلاک اور67 افراد زخمی ہوئے ہیں۔
بی بی سی سے گفتگو میں ادارے کے ترجمان عادل ظہور نے بتایا کہ اب تک موصول ہونے والی تفصیلات کے مطابق سب سے زیادہ ہلاکتیں اور نقصانات باجوڑ ایجنسی میں ہوئے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ سب سے زیادہ باجوڑ میں 26 افراد ہلاک ہوئے۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کو فون کیا ہے اور زلزلے میں ہونے والے نقصان پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔
مودی نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ نواز شریف سے ٹیلفونک بات چیت میں انھوں نے زلزلے میں قیمتی جانوں کے ضیاع پر افسوس کا اظہار کیا ہے اور بھارت نے پاکستان کو ہر ممکن تعاون کی پیشکش کی ہے۔
Image copyrightEPA
Image captionپشاور شہر کے مختلف علاقوں سے نقصانات کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں
زلزلے میں ہلاکتیں
خیبر پختونخوا162 ہلاک1217 زخمی
گلگت بلتستان8 ہلاک29 زخمی
قبائلی علاقے30 ہلاکزخمی59
پنجاب5 ہلاک67 زخمی
مجموعی ہلاکتیں2061381
اب تک ملنے والے تفصیلات کے مطابق زلزلے سے سب سے زیادہ تباہی خیبر پختونخوا کے علاقے میں ہوئی ہے لیکن پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد سمیت ملک کے مختلف شہروں میں بھی شدید زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے ہیں۔
بی بی سی کے پشاور میں نامہ نگار کے مطابق شہر کے مختلف علاقوں میں مکانات کے نقصان اور منہدم ہونے کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔
پاکستان کے صوبے گلگت بلتسان کے وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ ہنزہ اور نگر کے علاقے میں زلزلے کے بعد مٹی کے تودے گرے ہیں۔
پاکستان فوج کے ترجمان عاصم باجوہ نے کہا ہے کہ پاکستان میں آنے والے زلزلے کے بعد فوج، اور ہیلی کاپٹر حرکت میں آگئے ہیں جبکہ سی ایم ایچ ہسپتال اور ماہر امدادی کارکنوں کو ہائی الرٹ کر دیا گیا ہے۔
Image copyrightEPA
Image captionپشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں بڑی تعداد میں زخمیوں کو لایا جا رہا ہے

Saturday, October 24, 2015

خانہ بدوشوں کی بستی صحراء چولستان روپورٹ ایم اقبال انجم سے

چولستان کے خانہ بدوش

ایم اقبال انجم سے

اس سے قبل جن بستیوں کا ذکر آیا ہے ان کے علاوہ کچھ اور بستیاں مستقل حیثیت اختیار کرچکی ہیں اور یہاں رہنے والے بھی مستقل ہیں۔ لیکن بہت سے ٹوبے اور بستیاں غیر مستقل ہیں ان بستیوں کے لوگ وقتی طور پر کسی ٹوبے کے نزدیک جھگیاں لگا لیتے ہیں مگر جب پانی ختم ہوجاتا ہے تو کسی اور ٹوبے کی طرف ہجرت کرجاتے ہیں۔ ان ٹوبوں میں سے کچھ کے نام ہیں اور کچھ بے نام ہیں اور میرے خیال میں چولستان کے یہی لوگ چولستان کی ثقافت اور رسم و رواج کے اصل مالک ہیں جو کسی جگہ مستقل قیام نہیں کرتے بلکہ پورے چولستان میں گھومتے رہتے ہیں۔ وہ اب بھی شہری اور صنعتی زندگی سے بچے ہوئے ہیں اور اپنی قدیم رسموں اور ورثے کے محافظ ہیں۔ عورتوں اور مردوں کے لباس روایتی اور خاص چولستانی ہیں۔ بھیڑیں، گائیں اور اونٹ پالتے ہیں۔ انہوں نے اپنے جانوروں کو ایسی عادت ڈال رکھی ہے کہ وہ ہفتے میں صرف ایک مرتبہ پانی پیتے ہیں۔ ان میں زیادہ بلوچ، راجپوت، در سلے ہیں۔ یہ لوگ بارش کے لیے دعا مانگتے رہتے ہیں کیوں کہ بارش ہونے سے چولستان میں بہار آجاتی ہے، بوٹیاں سر سبز ہوجاتی ہیں اور جانوروں کے لیے پانی اور چارہ وافر مقدار میں فراہم ہوتا ہے۔ بارش کے بعد وہ گھاس خوب اُگ آتی ہے جو خس کی ٹٹیاں بنانے کے کام آتی ہے جسے یہ لوگ اپنی جھونپڑیاں بنانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ چولستان کے عام لوگوں کی طرح یہ خانہ بدوش بھی اپنے جانوروں کے گلے میں بڑے بڑے ٹل اور گھنٹیاں باندھتے ہیں اور انہیں چرنے کے لیے کھلا چھوڑ دیتے ہیں اور ان کے جانور چرنے کے بعد خود بخود واپس آجاتے ہیں۔ ایک شخص نے مجھے بتایا کہ گھنٹیوں کی بے شمار آوازوں میں سے وہ اپنی گائے کے گلے میں پڑی ہوئی گھنٹی کی آواز پہچان لیتا ہے۔ ان لوگوں کی زبان خالص سرائیکی اور سرائیکی ملی مارواڑی بھی ہے۔ عام خانہ بدوشوں کی طرح وہ بھی ڈرے ڈرے اور سہمے ہوئے رہتے ہیں۔ کسی شہری بابو کو دیکھ لیں تو ان کی مسکینی کود کر چہرے پر بیٹھ جاتی ہے اور کچھ دیر بعد بے چینی سی محسوس کرنے لگتے ہیں۔ یہ لوگ چولستان کرافٹس کے اصل مالک ہیں۔ مستقل رہائش رکھنے والوں نے ان کرافٹس کو کمرشل سطح پر اپنا لیا ہے لیکن چولستان کے خانہ بدوش ذاتی استعمال کے لیے چیزیں بناتے ہیں جن میں اونٹ کے بالوں کی فلاسیں، لوکاریں اور اونٹوں کی سجاوٹ کا سامان شامل ہے اس کے علاوہ یہ لوگ اونٹ کی کھال سے گھی رکھنے کے کپے بھی بناتے ہیں۔

پیاسوں کا قبروستان صحراء چولستان رپورٹ ایم اقبال انجم سے




چولستانی روہیلوں کا سب سے بڑا مسئلہ پانی ہے۔ چولستان کے کنوﺅں کا پانی کھارا ہونے کی وجہ سے انسانوں اور مویشیوں کے پینے کے قابل نہیں ہوتا۔ پانی کی قلت دور کرنے کیلئے چولستانی ٹوبوں میں پانی جمع کرلیتے ہیں جہاں سے وہ اپنی ضروریات پوری کرتے ہیں لیکن ان ٹوبوں کاگندا پانی ان کی جوانیاں چاٹ جاتا ہے کیونکہ ایک ہی ٹوبے پر مال مویشی پانی پیتے ہیں اور وہی پانی انسان بھی استعمال کرتے ہیں۔ چولستان میں لوگ راستہ بھٹکنے کی وجہ سے بھوک اور پیاس سے مر جاتے ہیں۔ چولستان میں بے شمار پیاسوں کی قبریں موجود ہیں۔ ہلاک ہونے والے پہلے راستہ بھول جاتے ہیں اور پھر بھٹکنے کے دوران اپنی چھاگل کا پانی صرف کر بیٹھتے ہیں۔ چولستانی مسافروں کا یہ دستور العمل ہے کہ سفر پر جانے سے پہلے راستے میں اگر پیاسے کی قبر پڑے تو اس پر پانی ڈالتے ہیں۔ اس عمل سے ان کا خیال ہے کہ ایک تو پیاس سے مرنے والا باآواز بلند پانی نہیں مانگے گا اور دوسرا ان کا سفر عافیت سے طے ہوگا اور راستے میں پانی کی تنگی نہ آئے گی۔ دراوڑکے اطراف میں ایسے 13 پیاسو ں کی قبریں موجود ہیں۔ جب کوئی چولستانی راستہ بھولنے کی وجہ سے اس المیے سے دوچار ہو کر لاچار ہو جائے یعنی نہ تو اس کا احساس ہمت بحال ہو اور نہ ہی کوئی مددگار پانی لے کر پہنچے تو وہ اپنے تن کے کپڑے پگڑی اور جوتے قریب کی جھاڑی پر ڈال دیتا ہے اور خود کسی جھاڑی کے سائے میں عریاں لیٹ کر ریت کے نیچے سے ٹھنڈی ٹھنڈی مٹی نکال کر سینے پر ڈالتا ہے۔ صحرا میں نگاہ میلوں دور تک چلی جاتی ہے اس لئے عام حالات میں پانچ چھ میل سے بآسانی کپڑے جوتے اور پگڑی کو جھاڑی پر آویزاں دیکھا جا سکتا ہے۔ اگر کوئی دوسرا چولستانی یہ دیکھ لے تو سمجھ جاتا ہے کہ کسی کی جاں خطرے میں ہے اور فوراً اس کی طرف مدد کیلئے لپکتا ہے۔ سمجھدار اور باخبر چولستانی سفر پر روانہ ہونے سے پہلے خوشبودار صحرائی گھاس ”قطرن“ کی جڑیں چھاگل میں ڈال دیتا ہے تاکہ تروتازہ رہیں، چھاگل کو رسیوں سے باندھ کر گردن میں لٹکا لیا جاتا ہے۔ پانی ختم ہونے کی صورت میں ”قطرن“ کی جڑیں پیاس کی حالت میں چوسنے سے پیاس بجھ جاتی ہے۔ یہ جڑ اس لحاظ میں بڑی کارآمد ہے کہ اس کو مستقل منہ میں رکھنے سے راہ چلتے مسافر کی پانی کی پیاس بہت کم ہو جاتی ہے۔ تاہم پانی، پچاس اور دریا چولستانیوں کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔ صدیوں پہلے جو مسائل صحرا نشینوں کو درپیش تھے آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی ان کے مسائل ویسے کے ویسے اور کوئی پرسان حال نہیں۔ ایک چولستانی کے مسائل کے بارے میں اس سے بہتر کوئی اظہار نہیں کہ میں تسا میڈی دھرتی تسی تسی روہی جائی میکوں آکھ نہ پنج دریائی (اسلم جاوید) (اے دوست میری طرح میری دھرتی بھی پانی کی پیاس سے نڈھال ہے۔ تو مجھے پانچ دریاﺅں کا مالک کہہ کر نہ پکار)

Friday, October 23, 2015

ر پریس کلب جھنگ سینئر صحافی مظفر اقبال دل کا دورہ پڑنے سے انتقال فرما گئے۔

جھنگ( صاحبزادہ زاکررحمان) ممبر پریس کلب جھنگ سینئر صحافی مظفر اقبال دل کا دورہ پڑنے سے انتقال فرما گئے۔اُن کی نمازِ جنازہ لولہے شاہ قبرستان

میں ادا کی گئی جس میں فوٹو گرافرز الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کے نمائندوں کی کثیر تعداد کے علاوہ شہریوں ،وکلاء، مختلف تنظیموں کے عہدیداروں ،عزیز و اقارب ،دوست احباب سیاسی و سماجی شخصیات اور مختلف طبقۂ فکر سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں افراد نے شرکت کی ۔بعد ازاں انہیں ان کے آبائی قبرستان میں سپردِ خاک کر دیا گیا۔اُن کی رسمِ قل خوانی بروز اتوار 25اکتوبر کو 2بجے دوپہر مسجد نورِ سحر سیشن چوک میں ادا کی جائے گی۔ان کی نا گہانی وفات پر صدر جھنگ یونین آف جرنلسٹس رائے منظور احمد عابد اور چئیر مین پریس کلب لیاقت علی انجم نے گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے لواحقین سے اظہارِ ہمدردی کیا۔####

جھنگ میں یوم عاشور عقیدت واحترام سے مناجارہا ہے

جھنگ(صاحبزادہ زاکررحمان
)ضلع بھر میں یوم عاشور کے سلسلے میں جلوسوں اور مجالس کا اہتمام آج ہو گا،تاریخی جلوسوں اور مجالس میں شرکت کیلئے دور دراز کے شہروں سے لوگوں کی بڑی تعداد میں جھنگ آمد،یوم عاشور کے حوالے سے ضلع بھر میں 327 جلوسوں اور 700 کے قریب مجالس کا اہتمام کیا جا رہا ہے ،جنکی سیکورٹی کے فل پروف انتظامات اور ضلع میں امن و امان کی صورتحال کو بر قرار رکھنے کیلئے پٹرولنگ پولیس کی چھٹیاں منسوخ کر دی گئیں۔سیکرٹری ایکسائز اینڈ ٹیکنیشن علی طاہر ،کمشنر فیصل آباد اور آر پی او فیصل آباد کا جلوسوں کے راستوں میں سیکورٹی انتظامات کو فعال اور متاثر کن بنانے کیلئے جھنگ میں خصوصی آمد۔جلوسوں اور مجالس کے باہر تعینات رضا کاروں کو ضلعی حکومت کی جانب سے موک ایکسر سائز اور کسی بھی نا خوشگوار واقع سے نمٹنے کیلئے خصوصی طور پر ٹریننگ بھی دی گئی ہے۔ ضلع بھر میں موجود الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے صحافیوں کی جانب سے انتہائی حساس جلوسوں کی کوریج بھی کی جائے گی۔ ضلع جھنگ ابتدائی دن سے فرقہ وارانہ فسادات میں صف اول میں شمار کیا جاتا ہے اسی وجہ سے یہاں ہمہ وقت اور خصوصی طور پر محرم الحرام کے ان ایام میں قانون نافذ کرنے والے ادارے انتہائی متحرک نظر آتے ہیں اور شہر میں امن و امان کی صورتحال کو بر قرار رکھنے کیلئے بہت سے مثبت اور ٹھوس اقدامات کئے جاتے ہیں ۔ صوبائی اور ڈویژنل گورنمنٹ سے سپیشل فورسز کے اہلکار بھی جھنگ میں خصوصی طور پر تعینات کئے جاتے ہیں۔حساس مقامات میں جھنگ سٹی جو کہ انتہائی قدیم شہر ہے اور کئی صدیوں سے آباد ہے سب سے حساس مانا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہاں سب سے زیادہ سیکورٹی کے سخت ترین انتظامات کئے جاتے ہیں ۔جھنگ سٹی میں یوم عاشور کے موقع پر 36 جلوس برآمد ہونگے جو اپنے روایتی راستوں سے ہوتے ہوئے عصر تک دربار بابا شاہ کبیر میں اختتام پذیر ہونگے۔ اسی طرح لوگوں نے لائسنسی مجالس کے علاوہ اپنے گھروں میں بھی بھی چھوٹی جالس کا اہتمام کیا ہے ۔300 کے قریب چھوٹی بڑی مجالس کا شہر بھر میں اہتمام کیا جائے گا۔جھنگ سٹی کا حساس ترین جلوس تعزیہ ،علم،اور ذوالجناح کے ساتھ جھنگ سٹی روڈ تانگہ اڈہ چوک،ہاتھیوان چوک،دربار با با شاہ کبیر،ناصر چوک،مدینہ چوک ،شیریں چوک ،مسجد اہلحدیث ،باب عمر گیٹ ، ممنا گیٹ ،سبزی منڈی اور میلاد چوک سے ہوتا ہوا دوبارہ اپنے راستے پر دربار بابا شاہ کبیر پر اختتام پذیر ہوتا ہے جہاں عصر کے وقت ماتم،زنجیر زنی اور نوحہ خوانی کی جاتی ہے۔ جلوس کے دوران ذاکرین اور نوحہ خوان لحظہ بہ لحظہ نوحہ خوانی اور اشعار پڑھتے ہوئے جلوس میں شرکاء اور عزاداروں کا خون گرماتے ہیں اور واقع کربلا کی یاد تازہ کرتے ہیں۔ان جلوس کے راستوں میں گھروں کی چھتوں پر بھی سیکورٹی اہلکار تعینات کئے جاتے ہیں اس کے علاوہ روٹ کے قریب 350 داخلی راستوں کو بھی سیل کر دیا جاتا ہے جن سے کسی بھی سواری یا وہیکل کا داخلہ ممنوع او ر نا ممکن ہوتا ہے۔ان جلوسوں کی سیکورٹی کیمروں اور رواں سال تو ڈرون کیمروں کی مدد سے بھی مانیٹرنگ کی جارہی ہے جنکو تھانہ سٹی جھنگ میں کمپیوٹر سیکشن اور ڈی پی او آفس کمپیوٹر سیکشن سے کنٹرول کیا جاتا ہے اور تمام لوگوں پر کڑی سے کڑی نظر رکھی جاتی ہے۔سیکورٹی کے سخت ترین انتظامات اور 2000 کے لگ بھگ سیکورٹی اہلکاروں کی تعیناتی پر شہریوں نے ضلعی حکومت پر اعتماد کا اظہار کیا ہے اور اس بات کی امید ظاہر کی ہے کہ انشا ء اللہ رواں سال بھی شہر میں امن و امان کی صورتحا ل بر قرار رہے گی۔

Thursday, October 22, 2015

سنئیر صحافی ایم اقبال انجم کو خیرپورٹامیوالی میں نیونیوز ٹی وی کا نمائندہ مقررکردیاگیا

نیو نیوز ٹی وی کے ڈرائکٹر نصراللہ خاں ملک

With Zafar Malik (station Head NEO news) Sadique Sajid( Senior Journalist NEO and Javed Baloch ( senior journalist NEO)
Nasrullah Malik's photo.

چولستان میں جنگلی جانوروں کیلئے نیشنل پارک لال سوہانرا کی اراضی میں11 ہزار 3سو66ایکڑ کی مزید توسیع

بہاولپور(رپورٹ ایم اقبال انجم سے)حکمہ جنگلات پنجاب کے کنزرویٹر نے خیرپورٹامیوالی،منڈی یزمان اوربہاول پور کے چولستان میں 
جنگلی جانور ہاتھی، شیر،چیتا، لومڑی، گیدڑ پالنے کیلئے نیشنل پارک لال سوہانرا کی اراضی میں گیارہ ہزار 3سو66ایکڑ کی مزید توسیع کردی اور چولستان میں سالہا سالوں سے مقیم 24ٹوبوں کے رہائشی ہزاروں چولستانی باشندوں کو بے دخلی کے آرڈر جاری کردیئے گئے جس پر چولستان کے 11نمبرداروں سمیت چولستانی باشندوں نے شدید احتجاج کیا اور وزیراعلیٰ پنجاب ،وزیراعظم پاکستان سمیت چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ اور چیف جسٹس سپریم کورٹ سے فوری نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے چولستانی باشندوں نےکنزرویٹر جنگلات کے ان احکامات کی شدید مذمت کرتے ہوئے احتجاج کیا اور کہا کہ ہم چولستانی باشندے سالہاسالوں سے حکومت پنجاب کو ٹیکس دے رہے ہیں اور چولستان میں مقیم ہیں اور اپنے مویشی پال کر گزربسر کر رہے ہیں یہ کہاں کا انصاف ہے کہ انسانوں کو بے دخل کیا جائے اور انسانی بستیوں میں جنگلی جانوروں کو رکھا جائے کیا یہ انسانیت کی توہین نہیں ہے ہم مرتو جائیں گے مگر اپنے گھر اور ٹوبے خالی نہیں کریں گے یہ چولستانی علاقے صدیوں سے ہمارے ہیں ہمارے خاندان یہاں پر مر گئے ہیں ہمارے بڑوں کی یہاں پر قبریں بنی ہوئی ہیں ہم محکمہ چولستان ترقیاتی ادارہ بہاولپور کو سالہاسالوں سے ٹیکس دے رہے ہیں اگر انسانوں سے جنگلی جانور اچھے ہیں تو ہمیں زندہ جلادیا جائے تاکہ نہ انسان ہونگے اور نہ ہی انسانی آبادیاں قائم ہونگی چولستانی نمبرداروں نے احتجاج کے دوران کہاکہ ہمارے بستیوں کے اردگرد جنگلے بنادیئے گئے ہیں اور وہاں پرجنگلی جانور چھوڑے جارہیں جو کہ انسانی حقوق کی پامالی کے مترادف ہے ۔اس موقع پر چولستانی باشندوں نے کنزرویٹر پنجاب کے خلاف نعرے بھی لگائے ۔ 

Wednesday, October 21, 2015

چولستان کے تاریخی مقامات کی رپورٹ ایم اقبال انجم سے

چولستان کے مقامات

رپورٹ ایم اقبال انجم سے

سلطان شاہ بخاری کے بارے میں کسی کو بھی یہ معلوم نہیں کہ وہ کب او ر کہاں سے یہاں آئے، قلعہ مروٹ کے قریب ایک ٹوبہ بھی سلطان شاہ کے نام سے موسوم ہے۔ آپ کا میلہ نہیں ہو تا لیکن سال کے سال لوگ جمع ضروری ہوتے ہیں۔ روایت ہے کہ ایک مرتبہ آپ قلعہ میر گڑھ کے ٹوبے پر اپنے مال ڈنگر کو پانی پلانے کے لیے رُکے لیکن وہان بھیڑ بہت تھی۔ لوگوں نے آپ سے کہا کہ تم اپنی باری کا انتظار کرو پہلے ہم اپنے جانوروں کو پانی پلالیں پھر تم اپنے جانور یہاں لے آنا، آپ نے لوگوں سے بہت کہا کہ میرے ڈنگر بہت پیاسے ہیں لیکن انہوں نے آپ کی ایک نہ مانی۔ اپ قلعے کے حاکم کے پاس پہنچے اور مِنّت کی اس نے بھی وہی جواب دیا جسے سُن کر آپ نے دعامانگی تو اسی وقت بارش شروع ہوگئی پھر آپ نے قلعے کے حاکم کو بددعا دی اور کہا تم کوٹ کے اندر مروگے اور دروازہ توڑ کر تمہیں باہر نکالا جائے گا اور یہی ہوا۔ وہ قلعے کے اندر ہی مرا اور قلعے کا دروازہ توڑ کر اسے باہر نکالا گیا۔ یہاں بھٹی، مغل، پریاڑ، بُھٹے، پنوار اور بوہڑآباد ہیں۔ چولستان کے دوسرے علاقوں کی طرح موج گڑھ میں بھی وہی رسم و رواج ہیں، شادی کرتے وقت رشتہ داروں اور قوم برادری کو اولیت دی جاتی ہے۔ لڑکے کو کھارے چڑھایا جاتا ہے۔ اس سے پہلی رات اس کے جسم پرآٹے میں ہلدی ملا کر اُبٹن مل دیا جاتا ہے۔ جسم پر ہلدی ملا آٹا ملنے کی رسم کو ’’چیکوں‘‘ بولتے ہیں۔ اور سہرے کو یہاں ’’مکنا‘‘ کہتے ہیں برات اونٹوں پر سوار ہو کر جاتی ہے جنہیں رنگ برنگے کپڑوں اور زیورات سے سجایا جاتا ہے۔ موج گڑھ میں اونٹ لڑانے کی رسم پرانی اور عام ہے بعض لوگ خاص لڑنے والے اونٹ پالتے ہیں کبھی کبھی شرطیں بھی لگتی ہیں۔ دین گڑھ قلعہ دین گڑھ دوسرے قلعوں کی نسبت چھوٹا معلوم ہوتا ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ اس کا بڑا حصہ ریت میں مل چکا ہے۔ اس قلعہ کے ساتھ ہی ایک کنواں بھی ہے۔ اس قلعہ کے بارے میں بھی لوگوں کو زیادہ معلومات حاصل نہیں، البتہ ایک نوجوان نے جو قلعے کے قریب ہی کھڑا تھا مجھے بتایا کہ یہاں ایک لکڑی پر خان خدا بخش کا نام لکھا ہوا ملا تھا، اس کا اتنا کہنا تھا کہ میرا ذہن قلعہ موج گڑھ کے ایک حاکم خان خدا بخش کی طرف چلا گیا میرے خیال میں دین گڑھ کا چھوٹا قلعہ واقعی خان خدا بخش نے بنوایا ہوگا، دین گڑھ اور موج گڑھ کا فاصلہ چند میل ہے اور میرے خیال میں جب خان خدا بخش موج گڑھ کے قلعہ کا حاکم ہوگا تو اس نے دین گڑھ کے قلعہ کی تعمیر کی ہوگی۔ یہاں شیخ، لاڑ، دین دار، کمہار اور چڑہوئے آباد ہیں۔ شیخ یہاں کی سب سے مال دار قوم ہے جو اونٹوں کا کاروبار کرتی ہے۔ دین دار لوئیاں، کمبل اور فلاسیاں بنتے ہیں۔ چڑھوئے زیادہ تر شیخوں کا مال ڈنگر چراتے ہیں۔ قلعہ مروٹ لوگوں کا خیال ہے کہ راجہ مہروٹ کے نام پر اس قلعہ کا نام مہروٹ رکھا گیا تھا اور بعد میں بگڑ کر مروٹ بن گیا۔ محققین نے بھی اپنی کتابوں میں یہی درج کیا ہے کہ اس قلعے کا بانی مہروٹ تھا۔ لیکن بعد میں یہ قلعہ مختلف ہاتھوں سے ہوتا ہوا عباسی خاندان کے قبضہ میں آگیا۔ اس کے نزدیک ہی دو مسجدیں بھی ہیں جو بعد میں تعمیر کی گئیں اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انہیں شہنشاہ اکبر نے بنوایا تھا۔ مروٹ میں رہنے والے لوگوں کا خیال ہے کہ یہ ملتان اور دلی کے قدیم راستہ پر واقع ہے اس لیے کسی زمانے میں یہ ایک اہم قلعہ رہا ہوگا۔ اس قلعہ کے ارد گرد بڑی بڑی رہائش گاہیں بھی تعمیر کی گئی ہیں۔ قلعہ مروٹ کے بارے میں بہت زیادہ تحقیق ہوچکی ہے اور بہت سی باتیں کتابوں میں درج ہوچکی ہیں، جن کا یہاں دہرانا مناسب نہیں۔ مروٹ کا قلعہ لق و دق صحرا میں واقع ہے لیکن قریب ہی مروٹ کا نیا شہر آباد ہوچکا ہے جو کہ پنجاب کے عام دیہاتوں جیسا ہے، یہاں آباد کاروں کے اپنے رقبے ہیں جہاں اچھی فصل ہوتی ہے۔

بہاول پور کی پہچان نیشنل پارک لال سوہانرا

لال سنہارا نیشنل پارک


بہاولپور سے 36 کلومیٹر دور ستاسی ہزار ایکٹر رقبے پر پھیلے اس پارک کا کچھ حصہ قدرتی جنگلات اور کچھ صحرائے چولستان پر مشتمل ہے، یہاں موجود جھیل اور اس میں ہزاروں بطخیں انتہائی خوبصورت منظر پیش کرتی ہیں۔ یہاں ایک چڑیا گھر بھی ہے جس میں کئی جانور موجود ہیں جبکہ نیشنل پارک میں کالے ہرن، چنکارہ، باز، دلدلی شکرے اور دیگر پرندوں کی اقسام پائی جاتی ہیں۔

ہزاروں سالہ چولستانی کلچر خطرے میں، حکومت بے نیاز

ہزاروں سالہ چولستانی کلچر خطرے میں، حکومت بے نیاز

رپورٹ ایم اقبال انجم سے
روہی میں واقع قلعہ دراوڑ تصویر: وکیپیڈیا
روہی میں واقع قلعہ دراوڑ
چولستان کے علاقے کی ثقافتی تاریخ ہزارو ں سال پرانی ہے ۔ اس تاریخ کے مطابق ایک وقت تھا جب چولستان کے علاقے میں ایک دریا بہتا تھا جسے دریائے ہاکڑا کہا جاتا تھا۔ اس دریا کے کنارے بسنے والے لوگ بہت خوشحال تھے، دریا کے کنارے بسے شہر تجارت کا مرکز تھے۔ ہاکڑا وادی کے لوگ ہاتھ سے کپڑے بناتے اور ان پر خوبصورت نقش و نگار بناتے جنہیں پوری دنیا میں پسند کیا جاتا۔ مٹی کے برتن بھی بنائے جاتے اور لوہے کا کام بھی بڑے نفاست سے کیا جاتا جسے دریا کے ذریعے سمندر تک اور پھر پوری دنیا میں پہنچایا جاتا ۔
اس طرح ہاکڑا وادی کے لوگ اپنے ہاتھ کے ذریعے بنائی گئی چیزوں کے ذریعے معاش کما کر گزر بسر کرتے ،خوشی کے موقع پر لوک ہاکڑا گیت گائے جاتے جنہیں سہرے کہا جاتا تھا۔ روہی کی دیو مالائی روایت میں جب اس زمین پر ایک عورت کے ساتھ نا انصافی ہوئی تو ہاکڑا دریا نے اپنا رخ تبدیل کر لیا۔
تاریخی طور پر جب دریا نے اپنا رخ تبدیل کیا اور زمینی تبدیلی آئی تو درخت سوکھنا شروع ہو گئے ،اور دریا کی زر خیز مٹی ریت میں تبدیل ہو گئی ۔ ہوا کے تیز جھونکوں نے ریت کو ٹیلوں میں تبدیل کر دیا ،اس طرح ہاکڑ کا پورا زرخیز علاقہ ٹیلوں کی شکل اختیار کر تے ہوئے صحرا میں تبدیل ہوگیا۔
ان تبدیلیوں کے وجہ سے بہت سے لوگ اس علاقے سے کوچ کر گئے مگر کچھ لوگ اپنی دھرتی کے ساتھ پیار کا ثبوت دیتے ہوئے اس علاقہ چولستان میں رہ گئے۔ ان لوگوں نے اپنی ثقافت کو بھوک اور پیاس میں بھی زندہ رکھا اور آج جو چولستانی ثقافت زندہ ہے ،انہی لوگوں کی مرہون منت ہے۔
چولستان کی اس ثقافت کو زندہ رکھنے میں یہاں کے فنکاروں، گلوکاروں اور شاعروں کا انتہائی اہم کردار رہا ہے۔ فنکاروں نے اپنی فن، گلوکاروں نے اپنے سریلے گیتوں اور شاعروں نے اپنی خوبصورت شاعری سے چولستان کی اس شناخت کو عوام کے دلوں میں قائم رکھا۔
خواجہ غلام فرید کا مزار تصویر: وکیپیڈیا
خواجہ غلام فرید کا مزار
برِ صغیر پاک و ہند کے معروف صوفی روحانی بزرگ خواجہ غلام فرید ایک عظیم سرائیکی شاعر بھی تھے جن کو چولستان کے علاقے سے، روہی کی صحرا نما سرزمیں سے والہانہ الفت تھی۔ خواجہ غلام فرید نے اپنی شاعری میں چولستان میں بسنے والے لوگوں کی محرومیوں کا ذکر کیا ہے اور چولستان کے صحرا نما سززمیں کے مختلف موسموں کو انتہائی خوبصورت الفاظ میں بیان کیا ہے۔
ان کی شاعری میں چولستان کی تپتی ریت سے لے کر برسات کے موسم کے نظارے تک اور روہی کی ٹھنڈی راتوں سے لے کر بیابانوں میں اگے پودوں تک، ہر طرح کا منظر ملتا ہے۔ حضرت خواجہ غلام فرید نے چولستان کو پہلی بار روہی کا نام اپنی شاعری میں دیا۔ آج اس چولستان کو روہی بھی کہا جاتا ہے اور یہ علاقہ جنوبی پنجاب کے تین اضلاع بہاولنگر، بہالپوراور رحیم یارخان تک پھیلا ہوا ہے۔
جب یہ صحرا سندھ میں داخل ہوتا ہے تو اسے تھر کہا جاتا ہے۔ علاقوں کی مناسبت سے ان کے نام تو تبدیل ہیں لیکن یہاں کے بسنے والے لوگوں کا کلچر ایک جیسا ہے۔ آج کل جو شاعر اپنی شاعری کے ذریعے چولستانی کلچرکو زندہ رکھے ہوئے ہیں ان میں جہانگیر مخلص امانﷲ ارشد اور شہزاد روہیلہ شامل ہیں۔ ان شعرا کی شاعری کو چولستان کے فوک گلوکاروں نے لوک گیتوں کا خوبصورت رنگ دے کر عوام میں مقبول کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
فقیرا بھگت کا ایک پوسٹر جس کے بیک گراؤنڈ میں قلعہ دراوڑ ہے تصویر: پاک وائسز
فقیرا بھگت کا ایک پوسٹر جس کے بیک گراؤنڈ میں قلعہ دراوڑ ہے
چولستان کے نامی گرامی فوک گلوکاروں میں فقیرا بھگت سرفہرست ہیں۔ فقیرا بھگت نے لوک گیتوں کے حوالے سے پوری دنیا میں نام کمایا اور اپنے فوک گیتوں کے ذریعے اپنے علاقے کی محرومیوں کو اور اپنے چولستانی کلچر کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچایا۔ اس طرح اپنے فن کے ذریعے انہوں نے چولستانی کلچر کو زندہ رکھنے میں حصہ ادا کیا۔
فقیرا بھگت نے 26 جنوری 1986 کو ریڈیو پاکستان میں اپنی فوک گلوکاری کا آغاز کیا اور بہت کم عرصے میں ایک مقبول فوک چولستانی گلوکار بن کر ابھرے۔ انہوں نے زیادہ تر خواجہ غلام فرید، سچل سرمست اور بابا بلھے شاہ کے کلام کو فوک گیتوں کی شکل دی۔ فقیرا بھگت نے لندن ،بھارت اور جرمنی میں بھی اپنے فن کا لوہا منوایا۔ لندن حکومت کی طرف سے انہیں فوک ایوارڈدیا گیا.
مگر پاکستان میں اس عظیم فنکار کے فن کی قدر نہ کی گئی اور 11 مئی 1999 کو فقیرا بھگت کالے یرقان میں مبتلا ہونے کے بعد دم توڑ گئے۔ ان کی زندگی کے آخری سال کسمپرسی کے عالم میں گزرے اور ناکافی وسائل نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنی بیماری کا علاج نہ کروا سکے۔ ان کی وفات کے 12 سال بعد حکومتِ پاکستان نے ان کے فن کا اعتراف کیا اور ان کو صدارتی تمغہ امتیاز سے نوازا گیا جو ان کی بیوی نے وصول کیا۔
نامور سرائیکی شاعر اور قوم پرست رہنما عاشق بزدار کے مطابق فقیرا بھگت کا کردار اس لئے بھی انتہائی اہم تھا کہ وہ چولستان کے آخری عظیم فوک گلوکار تھے۔ ان کے مطابق فقیرا بھگت کے بعد اب تک ان جیسا فوک گلوکار چولستان کی سرزمیں میں پیدا نہیں ہوا۔
چولستانی ثقافتی فوک موسیقی کی یہ عظیم آواز تو حکومتی نا قدری کا شکار ہو گئی مگر اس کے بعد بھی اقتدار نشینوں نے چولستانی ثقافت کو زندہ رکھنے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں لی۔ فقیرا بھگت کے بعد ان کے بیٹے موہن بھگت نے بھی فوک موسیقی کی راہ چنی اور آج انہیں فوک موسیقی کے بہترین گلوکاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔
 ہر سال 11 مئی کو چولستان میں فقیرا بھگت کی برسی منائی جاتی ہے جس میں ملک بھر سے دانش ور، شعرا حضرات اور فوک گلوکار جمع ہوتے ہیں. اس موقع پر چولستانی کلچر کے حوالے سے رات بھر دانش ور اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں اور گلو کار اور فنکار اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ رات بھر جاری رہنے والا یہ پروگرام علاقے کے مخیر خضرات کے تعاون سے چلتا ہے جبکہ حکومت چولستانی کلچر کے فروغ کے لئے اس طرح کی تقاریب منعقد کرانے میں بالکل کوئی دلچسپی نہیں لیتی۔

موہن بھگت فوک گیت گاتے ہوئے
اس حوالے سے فقیرا بھگت کے بیٹے موہن بھگت کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت سندھ کے کلچر کو زندہ رکھنے کے لئے فنکاروں کی معاشی معاونت کر تی ہے اور ہر تین ماہ بعد سندھ میں کلچر ل پروگرام کئے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ فوک گلوکاروں کے لئے سندھ حکومت ہر ماہ تیس ہزار روپے کا وظیفہ بھی دیتی ہے۔ دوسری طرف پنجاب میں وسائل تو موجود ہیں مگر یہ وسائل صرف لاہور کی حد تک محدود رہتے ہیں جبکہ چولستان کے کلچر کو زندہ رکھنے کی خاطر حکومت کوئی اقدامات نہیں کر رہی۔ ان کا کہنا ہے کہ اس لئے چولستانی کلچرآخری مراحل میں داخل ہو چکا ہے۔
موہن بھگت کا یہ بھی کہنا تھا کہ آرٹس کونسل میں بھی ہونے والے سرکاری ایونٹس میں بھی چولستانی فنکاروں کو نہیں بلوایا جاتا۔  اگر حکومت چولستانی فنکاروں گلوکاروں اور شعرا حضرات کو سپورٹ کرے تو انٹر نیشنل سطح پر چولستانی کلچرکو فروغ دیا جا سکتا ہے ۔

Tuesday, October 20, 2015

وہ ایک مشت خاک کہ صحرا کہیں جسے ! قلعہ ڈیراور چولستان کا گیٹ وے رپورٹ ایم اقبال انجم سے

وہ ایک مشت خاک کہ صحرا کہیں جسے ! قلعہ ڈیراور چولستان کا گیٹ وے

رپورٹ ایم اقبال انجم سے

قدیم تاریخ سے سرائیکی وسیب کی اپنی منفرد شناخت اور پہچان ہے۔ روہی تھل ، دامان او رکچھی کے علاقے اس کے دلفریب رنگ ہیں۔ فطرتی حسن، دریا اور صحرا اس کی اہمیت کو نمایاں کرتے ہیں۔ صوفیاء کی یہ دھرتی اپنے سینے پر آثار قدیمہ اور لوک ورثہ کے کئی نایاب اور الگ نشان رکھتی ہے۔ اس دھرتی کا مرکز ملتان اپنی قدامت کے حوالے سے پوری دنیا میں اپنا تعارف رکھتا ہے۔ روہی، چولستان اور تھل نہ صرف اپنا اپنا لوک ادب، ریت روایت اور موسمی تغیرات کے حوالے سے جانے پہچانے جاتے ہیں بلکہ یہاں پر بعض آثارِ قدیمہ سرائیکی دھرتی کی تاریخی اہمیت کو اجاگر بھی کرتے ہیں۔ ان آثار قدیمہ میں ایک ’’قلعہ ڈیراور ‘‘بھی ہے۔ بہت سے لوگ اسے قلعہ دراوڑ کے نام سے بھی پکارتے ہیں جو کہ غلط العام ہے،تاہم اس کا ایک تلفظ ڈیر اول بھی ہے۔ احمد پور شرقیہ سے نکلتی ایک ٹوٹی پھوٹی سنگل سڑک سیدھی قلعہ ڈیراور کو جاتی ہے۔ یہ قلعہ یزمان نامی شہر میں موجود ہے۔ یہیں سے چولستان کا آغاز ہوتا ہے، چولستان میں چالیس سے زائد تاریخی قلعے اور دیگر تاریخی مقامات ہیں جن میں قلعہ ڈیراور نقش اولین ہے۔ اسی پس منظر میں اس قلعے کو چولستان کا ’’ گیٹ وے‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ قلعہ ڈیراور اپنی ساخت اور فن تعمیر میں منفرد اور نرالی شان والی پرشکوہ عمارت ہے۔ فنکارانہ انداز میں گولائی میں بنائی گئی اس کی بلند وبالا دیواریں ہر ناظر کو متوجہ کرتی ہیں۔ اس کی شان وشوکت او رجاہ وجلال بتاتا ہے کہ کسی زمانے میں یہاں کوئی بڑی سج دھج اور ذوق والا بادشاہ حکومت کرتا ہوگا۔ اس قلعے کی بلندوبالا فصیلیں وقت کے کئی نشیب وفراز، جنگ وجدل کے دلخراش واقعات اور فتح وشکست کے مناظر کی چشم دیدگواہ ہیں۔ اس کے درودیوار میں کئی راز دفن ہیں۔ ہماراا لمیہ دیکھیے کہ ہم میں سے یہ کوئی نہیں جانتا کہ کس نے او رکب اس کا سنگ بنیاد رکھا؟ اس حوالے سے تاریخ محوخواب ہے۔ کہتے ہیں کہ صدیوں پہلے اسے کسی بھٹی ذات کے مہاراجے نے تعمیر کروایا تھا جبکہ ایک اور روایت کے مطابق یہ قلعہ جیسلمیر کے شہزادے’’دیوراول سنگھ بھاٹیہ‘‘ نے پانچ ہزار سال قبل وسطی ایشیاء اورہندوستان کے درمیان تجارتی اشیاء کی حفاظت کی غرض سے تعمیر کروایا تھا۔ یہ قلعہ زیادہ عرصہ تک راجستھان کے راجپوت حکمرانوں کے پاس رہا۔1735ء کے لگ بھگ بہاول پور کے عباسی حکمرانوں نے اسے اپنے قبضے میں لے کر دارالحکومت کا درجہ دیا۔ قلعے کی موجودہ پختہ عمارت اسی دور میں تعمیر کی گئی تھی۔ قلعے کی بیرونی دیواروں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہیں تعمیر کرنے کی غرض سے اینٹیں خصوصی طور پر اُچ شریف سے منگوائی گئی تھیں کیونکہ اُچ شریف اولیاء اللہ کی سرزمین سمجھی جاتی ہے۔ اسی لئے کام کرنے والے مزدوروں نے عقیدت کے طور پر اینٹوں کو ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ تک لاتے ہوئے قلعے تک پہنچایا تھا۔1744ء میں شکار پور کے نواب نے عباسیوں سے یہ قلعہ چھین لیا تھا ،لیکن1804ء میں عباسی نواب مبارک خان نے قلعہ ڈیراول پر دوبارہ اپنا تسلط جمالیا۔1804ء سے لیکر ایک عرصہ تک یہ قلعہ عباسی نوابوں کی ملکیت رہا(بحوالہ کافر کوٹ سے قلعہ ڈیراول تک از غلام عباس سیال)۔ عباسی خاندان کے نامور فرمانروا نواب صادق خان عباسی کے عہد تک اس قلعے کی برابر دیکھ بھال اور مرمت کی جاتی رہی، مگر بعد میں نکمے او ربے حس نوابوں نے اس پر کوئی توجہ نہ دی، جس سے اس کی حالت مخدوش ہوتی گئی۔قلعہ کا داخلی دروازہ لکڑی اور لوہے سے اپنی تشکیل پاتا ہے یہ دروازہ بلندی پر نصب کیا گیا ہے ،جہاں کھڑے ہوکر ہم گردونواح کا جائزہ لے سکتے ہیں او ریہیں سے نوابوں کے قبرستان کا مشاہدہ بھی کیا جاسکتا ہے۔یہ قبرستان نوابوں کی شان و شوکت اور خود نمائی کی دلیل ہے۔ کچھ ہی فاصلے پر ایک شاندار مسجد ایستادہ ہے، جو کسی حد تک لاہور کی بادشاہی مسجد اور دہلی کی موتی مسجد کی یاد دلاتی ہے۔ یہ مسجد نواب بہاول خان نے 1849ء میں تعمیر کروائی تھی، اس کی کشادگی اور فن تعمیر سے نکھرتاحسن نوابوں کی اسلام سے وابستگی کا پتہ بھی دیتا ہے۔ قلعے کے گردونواح میں کچے مکانوں کے کھنڈرات کسی ایسی داستان کی یاد دلاتے ہیں جس میں’’ظالم دیو‘‘ نے آبادی کو ہڑپ کرلیا ہو اور چہار سوسناٹوں کا بسیرا ہو۔ قلعے کی بلند وبالا فصیلوں کے اند رجگہ جگہ گڑھے، ٹوٹی پھوٹی بکھری اینٹیں او رپراسرار اور دل دہلا دینے والے مناظر میں نواب محل، پھانسی گھاٹ، جیل خانہ، سرنگیں، خستہ سیڑھیاں، کھنڈرات کا روپ دھارچکی ہیں۔ نواب محل میں بلندی پر تعمیر کی گئی عمارت میں جو حصہ ہے وہاں کی کھڑکیوں اور بالکونیوں (Bolconies) سے صحرا کا منظر دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ شاہی حصہ، شاہی قلعہ لاہور شاہی محل کے مشابہ ہے۔ اس کی چھت کا اندرونی نظر نقش اور پچی کاری سے مزین ہے۔ قلعے کے کھلے دالان میں دوخستہ توپیں اور چند نامعلوم لوگوں کی قبریں بھی موجود ہیں۔ سارے کا سارا قلعہ اتنی بے توجہی کا شکار ہے کہ نہ تو یہاں پر کوئی محافظ، نہ پانی کا انتظام اور نہ ہی قلعے سے متعلق کوئی ایسی تحریر ہے جس سے سیاح اس سے متعارف ہوسکیں۔ داخلی دروازے کی چابی نواب کے کسی ملازم کے پاس رہتی ہے، جو نذرانہ لے کر اسے کھولتا ہے۔ دروازے میں داخل ہوتے ہی آپ کا استقبال چمگاڈریں کریں گی، چمگادڑوں کا یہ حال ہے کہ اس دروازے کی دیواروں او رچھت پر گویا چمگادڑوں کا لیپ کردیا گیا ہو، قلعے کے اندر کمروں میں بھی یہی حالت ہے او راتنی ناگوار بدبو ہوتی ہے کہ الامان۔ قلعے کا اندرونی منظر شہنشاہوں اور نوابوں کے جاہ وجلال کی خبردیتا ہے۔چاندنی سے لطف اندوز ہونے کی الگ جگہیں تو چولستان کی وسعتوں سے دل لبھانے کے الگ مقام، نوکروں چاکروں اور قیدیوں کے لئے الگ عمارتیں اور آرام دہ خواب گاہیں الگ مگر ہنستے بستے اور پر رونق اس قلعے کی موجودہ حالت زار ہر آنے جانے والوں کو اشکبار کردیتی ہے لمحہ موجود میں یہ قلعہ فقط چمگادڑوں کا رین بسرابن کر رہ گیا ہے، بعض کمروں میں اُگنے والی جھاڑیاں تناور درخت بن کر کمروں کی چھتوں کو بھی کراس کرگئی ہیں۔بین کرتی قلعے کی مجموعی شخصیت اپنے لاوارث ہونے کی دہائی رہی ہے۔ اس کا مالک نواب صلاح الدین عباسی، جس کو شاید اب اپنے خاندانی وقار کا احساس بھی نہیں رہا،اگر اس قلعے کو رونق بخش دے، تو ہمیشہ کے ایک کے لئے اس کا نام تاریخ میں امر ہوجائے گا۔ سنا ہے یو اے ای کی حکومت نے نواب صاحب سے قلعے کو پندرہ برس کے لئے لیز پر لینے کی درخواست کی ہے مگر ڈرا سہما مصلحت پسند یہ نواب خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے۔ اگر یہ قلعہ یو اے ای کے پاس کچھ عرصے کے لئے چلا جائے تو اس کی حالت سنورسکتی ہے۔ نہیں تو آنے والی نسلیں اس کا ذکر حرف کتاب اور لوک گیتوں میں سنیں گی۔۔۔! (انٹرنیٹ سے ماخوذ) ٭…٭…٭

.’’چولستان ‘‘اور’’ رَوہی‘‘ رپورٹ ایم اقبال انجم سے

’’چولستان ‘‘اور’’ رَوہی‘‘

ایم اقبال انجم سے

چولستان ایک وسیع وعریض صحرا ہے جس کی سرحدیں بھارتی صحرائی صوبے راجستھان سے پاکستانی صوبے سندھ تک پھیلی ہوئی ہیں۔ سندھ میں اسے’’ تھر‘‘ اور پنجاب کے ملتان اور ڈیرہ غازی خان کے ڈویژنوں میں’’ تھل‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ بہاولپور ڈویژن میںیہ ’’چولستان‘‘ اور ’’رَوہی‘‘ کہلاتا ہے۔ چولستان شمال کی طرف سے زیریںخطے سے گھرا ہواہے، جسے مقامی طور پر ہاکڑہ کہتے ہیں، جہاں200فٹ تک بلند ٹیلوں کی ایک قطار چلی آتی ہے۔ ان ٹیلوں میں اُگنے والے خاص طرز کی سَر، سروٹ، تیلے، سرکانے، ملھے اور ایسی ہی جھاڑیاں ملتی ہیں۔ ٹیلوں کے بننے اورمٹنے میں ہوا اَور آندھیوںکاخاصاعمل دخل ہے۔اس علاقے میں طرح طرح کے ٹیلے بنتے رہتے ہیں، لیکن سب سے اہم ٹیلے وہ ہیںجنہیں ’’برخان‘‘کہتے ہیں۔ برخان ایک ایساتنہا ٹیلہ ہوتاہے جس کے خدوخال تقریباً پہلی تاریخوں کے چاند جیسے ہوتے ہیں۔ چوڑے سے گول کنارے نیچے کی سمت جاتے ہیں۔ ٹیلے کی سمت کا نشان چلتی ہوا اَور تیز آندھی کی رو سے ملتا ہے اور سست روی اُس کی خاص نشانی ہے۔ چوٹی کا تاریک رُخ انتہائی خوبصورت اور ہموارہوتا ہے۔ جہاں ریت کے ذرے اُوپر چڑھتے رہتے ہیں۔ ٹیلے کی ہلالی سمت کی جانب گہری بل کھاتی ٹِیلی سی ہوتی ہے جسے ’’تلکن مکھڑا‘‘کہتے ہیں۔ جو تقریباً 35 ڈگری اُفقی زاویہ رکھتی ہے۔ چوٹی سے ریت کے ذرے ہوا سے اُڑ اُڑ کر زیریں حصّے کی جانب پھسل پھسل آتے ہیںاور ڈھلوان کی طرف اکٹھے ہوتے ہیں۔ جب تیز ہوا چل رہی ہو تو ریت کے ذروں کا ایک بادل چوٹی پر بنتا دکھائی دیتا ہے۔ یہ ہلالی ٹیلے عام طور پر ایک ہموار سطح پر ہوتے اور اسے گھیرتے نظرآتے ہیں۔ ریت اس وقت بھی اکٹھا ہونا شروع ہو جاتی ہے جب اس کے رستے میں کوئی چھوٹا سا پہاڑی پتھر یا کسی جھاڑی کی جڑ یا شاخ آجائے ۔ ایک مرتبہ جب خاصی ریت جُڑجائے تویہ نیچے کی جانب سرکنا شروع ہو جاتی ہے۔ عام طورپریہ ٹیلے ایک ایسی قطار یا زنجیر بناتے جاتے ہیںجو چلتی ہوا کی ڈھلوان کی طرف ہوتی ہے۔ زیر زمین 80فٹ کی گہرائی میں کڑوا پانی ملتا ہے۔ 4000ق م کے قرب وجوار میں چولستان کی وہ تہذیب جڑیں پکڑ رہی تھی جسے عام طور پر دریائے ہاکڑہ کی نسبت سے تہذیب وادیٔ ہاکڑہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ 1200ق م تک دریا رواں رہا۔ پھر 600ق م کے قریب اس کی روانی بے قاعدہ ہوئی اور اس کا وجود کرۂ ارض سے مٹ گیا۔ یہاں پھلنے پھولنے والی ہاکڑہ تہذیب انسانی تاریخ میں ایک طویل باب رکھنے والی تہذیب ہے۔ثقافتی ترقی کے حوالے سے اس تہذیب کا موازنہ میسو پوٹیمیائی، مصری اور بابلونی تہذیبوں سے کیا جا سکتا ہے۔ متنوع سیاسی و جغرافیائی عوامل اس عظیم تہذیب کے خاتمے کا باعث بنے۔ حقیقتاً یہی دراوڑی آبادی ہے جو ہاکڑہ تہذیب کے آثار میں اب تک باقی بچی ہوئی ہے۔ اسے وقتاً فوقتاً دلاور، ڈیرہ جٹ، ڈیرہ راول جیسے مختلف ناموں سے پکارا گیا ہے ۔لیکن اس کا اصل دراوڑی نام ’’دراوڑ‘‘ معدوم زمانوں سے زندہ چلا آرہا ہے۔ خشک ہو جانے والے دریائے ہاکڑہ کی گزرگاہ کے قریب عین چولستان کے وسط میں قلعہ دراوڑکے کھنڈرات ابھی تک موجود ہیں۔ دریائے ہاکڑہ یاگھگھرکے مٹ جانے کاعمل قبل ازتاریخ کے زمانوں میں وقوع پذیر ہوا۔ اس لیے پسِ پردہ جغرافیائی تبدیلیوں کوجاننے کے لیے شاید ہی کوئی نشانی بچا ہو۔ اس کے نتیجے میں بہاولپورریجن کادوتہائی حصہ بے آب وگیاہ ہوگیا۔ اپنے گم شدہ ماضی کی وجہ سے اس عظیم دریاکوآج بھی جغرافیہ دان ’’گم شدہ دریا‘‘کے نام سے یادرکھے ہوئے ہیں۔ رِگ وید کی حمدوں میں اسے ’’مقدس سرسوتی‘‘کے نام سے شناخت کیاگیاہے جو پہاڑوں سے سمندرتک جانے والا سب سے پوِتر دریا ہے۔ مہا بھارت میں اسے ’’دو اَوتار دریاؤں میں سے ایک‘‘ قرار دیا گیا ہے جو دھرماکھیسڑا (مقدس زمین)کی جنوبی سرحدتشکیل دیتا تھا۔پہلی آریائی آبادی اسی دریاکے کنارے آباد ہوئی تھی۔ چولستانی لوگوں کو مقامی طورپر روہیلے کہا جاتا ہے۔ ان کے بارے میں قیاس کیا جاتا ہے کہ وہ مستقل طو رپر آریاؤں، جٹوں، بلوچیوں اور ایرانیوں کے حملوںکی زد میں رہے تھے لیکن سماجی ڈھانچہ اب تک تبدیل نہیں ہوا ہے۔ دریائے ہاکڑہ کا صحرا میں بدل جانا بھی ایک ممکنہ وجہ ہے جس نے اس جگہ کوناقابل رہائش بنایا۔ مقامی روایات کے مطابق لفظ چولستان دراصل لفظ ’’چولی‘‘سے نکلا ہے۔ چولستانی خواتین گھاگھرے پر کَسی ہوئی مختصر چولی پہنتی ہیں جس کی شباہت ٹیلوں سے ملتی ہے۔ ’’جغرافیہ سندھ‘‘ میں ’’وچولو‘‘ (درمیانی) کو چولستان کا ماخذ بیان کیا جاتا ہے۔ چولستانی بزرگوں کا کہنا ہے کہ اس صحرا میں زور دار آندھیاں چلتی ہیںجس کی وجہ سے ریت کے ٹیلے حرکت میں رہتے ہیں۔ ان صحرائی ہواؤں کی وجہ سے وہ ایک سے دوسری جگہ منتقل ہوتے رہتے ہیں۔ 1945ء کی سلوی کلچر کانفرنس میں لیفٹیننٹ کرنل ویسٹ لینڈ نے سال 1870تا 1935ء کے درمیان ہونے والے ایک سروے پر مشتمل نقشہ پیش کیا گیا تھا۔ جس میں دکھایا گیا تھا کہ ریت کے ٹیلوں نے شمال مشرقی رُخ پر 65سال میں آدھ میل سفر کیا تھا۔1؎ لفظ ’’چولن‘‘ٹیلوں کی اسی حرکت کی کیفیت کی غمازی کرتا ہے۔ لہٰذاخیال کیا جاتا ہے کہ چولستان کا لفظ ’’چولن‘‘ سے مشتق ہے۔ایک خیال یہ بھی پیش کیا گیا ہے کہ لفظ’’ چھول‘‘سرائیکی میں لہر کے معنوں میں آتا ہے۔ صحرا کا منظر اس کی منظر کشی کرتا نظر آتا ہے۔ اس لیے ’’چھول‘‘سے ’’چھولیاں‘‘ کا لفظ صوتی یکسانی کی وجہ سے چولستان کے قریب ہے۔ لہٰذااس کا ماخذ یہ بھی ہوسکتاہے۔ تاریخ کی کتب میں چولستان کی مختلف وجوہاتِ تسمیہ بیان ہوئی ہیں جن کے مطابق لفظ ’’چولستان‘‘ترکی لفظ’’چول‘‘سے مشتق ہے جس کامطلب ہے صحرا۔جبکہ کچھ مؤرخ یقین رکھتے ہیں چولستان عراقی (کرد)لفظ’’چیلستان‘‘سے بگڑ کر بناہے جس کامعنی ہے بے آب و گیاہ علاقہ۔2؎ ’’روہی‘‘کے نام سے معروف چولستان کو ’’روہی‘‘ اسی تلفظ میں ادا کیا جاتا ہے جو اب بھی تبت کے کچھ علاقوں میں مروج ہے۔ یعنی ’’روہ‘‘ جس کا مطلب ہے’ ’پہاڑی‘‘ اور جس سے ’’روہیلا‘‘ کا نام اخذ کیا گیا ہے۔ اسی طرح سرائیکی میں، جو چولستان کے باشندوں کی ماں بولی ہے، ’’روہ‘‘ پہاڑ کو کہتے ہیں۔چونکہ چولستان پہاڑ نماٹیلوں سے بھرا پڑا ہے اس لیے اسے روہی کانام دیا گیا ہے۔ (کتاب ’’تاریخ ِضلع بہاولنگر-معدوم سے معلوم تک‘‘ ناشر: بُک ہوم،لاہور) ٭…٭…٭