Saturday, October 24, 2015

خانہ بدوشوں کی بستی صحراء چولستان روپورٹ ایم اقبال انجم سے

چولستان کے خانہ بدوش

ایم اقبال انجم سے

اس سے قبل جن بستیوں کا ذکر آیا ہے ان کے علاوہ کچھ اور بستیاں مستقل حیثیت اختیار کرچکی ہیں اور یہاں رہنے والے بھی مستقل ہیں۔ لیکن بہت سے ٹوبے اور بستیاں غیر مستقل ہیں ان بستیوں کے لوگ وقتی طور پر کسی ٹوبے کے نزدیک جھگیاں لگا لیتے ہیں مگر جب پانی ختم ہوجاتا ہے تو کسی اور ٹوبے کی طرف ہجرت کرجاتے ہیں۔ ان ٹوبوں میں سے کچھ کے نام ہیں اور کچھ بے نام ہیں اور میرے خیال میں چولستان کے یہی لوگ چولستان کی ثقافت اور رسم و رواج کے اصل مالک ہیں جو کسی جگہ مستقل قیام نہیں کرتے بلکہ پورے چولستان میں گھومتے رہتے ہیں۔ وہ اب بھی شہری اور صنعتی زندگی سے بچے ہوئے ہیں اور اپنی قدیم رسموں اور ورثے کے محافظ ہیں۔ عورتوں اور مردوں کے لباس روایتی اور خاص چولستانی ہیں۔ بھیڑیں، گائیں اور اونٹ پالتے ہیں۔ انہوں نے اپنے جانوروں کو ایسی عادت ڈال رکھی ہے کہ وہ ہفتے میں صرف ایک مرتبہ پانی پیتے ہیں۔ ان میں زیادہ بلوچ، راجپوت، در سلے ہیں۔ یہ لوگ بارش کے لیے دعا مانگتے رہتے ہیں کیوں کہ بارش ہونے سے چولستان میں بہار آجاتی ہے، بوٹیاں سر سبز ہوجاتی ہیں اور جانوروں کے لیے پانی اور چارہ وافر مقدار میں فراہم ہوتا ہے۔ بارش کے بعد وہ گھاس خوب اُگ آتی ہے جو خس کی ٹٹیاں بنانے کے کام آتی ہے جسے یہ لوگ اپنی جھونپڑیاں بنانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ چولستان کے عام لوگوں کی طرح یہ خانہ بدوش بھی اپنے جانوروں کے گلے میں بڑے بڑے ٹل اور گھنٹیاں باندھتے ہیں اور انہیں چرنے کے لیے کھلا چھوڑ دیتے ہیں اور ان کے جانور چرنے کے بعد خود بخود واپس آجاتے ہیں۔ ایک شخص نے مجھے بتایا کہ گھنٹیوں کی بے شمار آوازوں میں سے وہ اپنی گائے کے گلے میں پڑی ہوئی گھنٹی کی آواز پہچان لیتا ہے۔ ان لوگوں کی زبان خالص سرائیکی اور سرائیکی ملی مارواڑی بھی ہے۔ عام خانہ بدوشوں کی طرح وہ بھی ڈرے ڈرے اور سہمے ہوئے رہتے ہیں۔ کسی شہری بابو کو دیکھ لیں تو ان کی مسکینی کود کر چہرے پر بیٹھ جاتی ہے اور کچھ دیر بعد بے چینی سی محسوس کرنے لگتے ہیں۔ یہ لوگ چولستان کرافٹس کے اصل مالک ہیں۔ مستقل رہائش رکھنے والوں نے ان کرافٹس کو کمرشل سطح پر اپنا لیا ہے لیکن چولستان کے خانہ بدوش ذاتی استعمال کے لیے چیزیں بناتے ہیں جن میں اونٹ کے بالوں کی فلاسیں، لوکاریں اور اونٹوں کی سجاوٹ کا سامان شامل ہے اس کے علاوہ یہ لوگ اونٹ کی کھال سے گھی رکھنے کے کپے بھی بناتے ہیں۔

No comments:

Post a Comment