
چولستانی روہیلوں کا سب سے بڑا مسئلہ پانی ہے۔ چولستان کے کنوﺅں کا پانی کھارا ہونے کی وجہ سے انسانوں اور مویشیوں کے پینے کے قابل نہیں ہوتا۔ پانی کی قلت دور کرنے کیلئے چولستانی ٹوبوں میں پانی جمع کرلیتے ہیں جہاں سے وہ اپنی ضروریات پوری کرتے ہیں لیکن ان ٹوبوں کاگندا پانی ان کی جوانیاں چاٹ جاتا ہے کیونکہ ایک ہی ٹوبے پر مال مویشی پانی پیتے ہیں اور وہی پانی انسان بھی استعمال کرتے ہیں۔ چولستان میں لوگ راستہ بھٹکنے کی وجہ سے بھوک اور پیاس سے مر جاتے ہیں۔ چولستان میں بے شمار پیاسوں کی قبریں موجود ہیں۔ ہلاک ہونے والے پہلے راستہ بھول جاتے ہیں اور پھر بھٹکنے کے دوران اپنی چھاگل کا پانی صرف کر بیٹھتے ہیں۔ چولستانی مسافروں کا یہ دستور العمل ہے کہ سفر پر جانے سے پہلے راستے میں اگر پیاسے کی قبر پڑے تو اس پر پانی ڈالتے ہیں۔ اس عمل سے ان کا خیال ہے کہ ایک تو پیاس سے مرنے والا باآواز بلند پانی نہیں مانگے گا اور دوسرا ان کا سفر عافیت سے طے ہوگا اور راستے میں پانی کی تنگی نہ آئے گی۔ دراوڑکے اطراف میں ایسے 13 پیاسو ں کی قبریں موجود ہیں۔ جب کوئی چولستانی راستہ بھولنے کی وجہ سے اس المیے سے دوچار ہو کر لاچار ہو جائے یعنی نہ تو اس کا احساس ہمت بحال ہو اور نہ ہی کوئی مددگار پانی لے کر پہنچے تو وہ اپنے تن کے کپڑے پگڑی اور جوتے قریب کی جھاڑی پر ڈال دیتا ہے اور خود کسی جھاڑی کے سائے میں عریاں لیٹ کر ریت کے نیچے سے ٹھنڈی ٹھنڈی مٹی نکال کر سینے پر ڈالتا ہے۔ صحرا میں نگاہ میلوں دور تک چلی جاتی ہے اس لئے عام حالات میں پانچ چھ میل سے بآسانی کپڑے جوتے اور پگڑی کو جھاڑی پر آویزاں دیکھا جا سکتا ہے۔ اگر کوئی دوسرا چولستانی یہ دیکھ لے تو سمجھ جاتا ہے کہ کسی کی جاں خطرے میں ہے اور فوراً اس کی طرف مدد کیلئے لپکتا ہے۔ سمجھدار اور باخبر چولستانی سفر پر روانہ ہونے سے پہلے خوشبودار صحرائی گھاس ”قطرن“ کی جڑیں چھاگل میں ڈال دیتا ہے تاکہ تروتازہ رہیں، چھاگل کو رسیوں سے باندھ کر گردن میں لٹکا لیا جاتا ہے۔ پانی ختم ہونے کی صورت میں ”قطرن“ کی جڑیں پیاس کی حالت میں چوسنے سے پیاس بجھ جاتی ہے۔ یہ جڑ اس لحاظ میں بڑی کارآمد ہے کہ اس کو مستقل منہ میں رکھنے سے راہ چلتے مسافر کی پانی کی پیاس بہت کم ہو جاتی ہے۔ تاہم پانی، پچاس اور دریا چولستانیوں کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔ صدیوں پہلے جو مسائل صحرا نشینوں کو درپیش تھے آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی ان کے مسائل ویسے کے ویسے اور کوئی پرسان حال نہیں۔ ایک چولستانی کے مسائل کے بارے میں اس سے بہتر کوئی اظہار نہیں کہ میں تسا میڈی دھرتی تسی تسی روہی جائی میکوں آکھ نہ پنج دریائی (اسلم جاوید) (اے دوست میری طرح میری دھرتی بھی پانی کی پیاس سے نڈھال ہے۔ تو مجھے پانچ دریاﺅں کا مالک کہہ کر نہ پکار)
No comments:
Post a Comment