Wednesday, October 21, 2015

ہزاروں سالہ چولستانی کلچر خطرے میں، حکومت بے نیاز

ہزاروں سالہ چولستانی کلچر خطرے میں، حکومت بے نیاز

رپورٹ ایم اقبال انجم سے
روہی میں واقع قلعہ دراوڑ تصویر: وکیپیڈیا
روہی میں واقع قلعہ دراوڑ
چولستان کے علاقے کی ثقافتی تاریخ ہزارو ں سال پرانی ہے ۔ اس تاریخ کے مطابق ایک وقت تھا جب چولستان کے علاقے میں ایک دریا بہتا تھا جسے دریائے ہاکڑا کہا جاتا تھا۔ اس دریا کے کنارے بسنے والے لوگ بہت خوشحال تھے، دریا کے کنارے بسے شہر تجارت کا مرکز تھے۔ ہاکڑا وادی کے لوگ ہاتھ سے کپڑے بناتے اور ان پر خوبصورت نقش و نگار بناتے جنہیں پوری دنیا میں پسند کیا جاتا۔ مٹی کے برتن بھی بنائے جاتے اور لوہے کا کام بھی بڑے نفاست سے کیا جاتا جسے دریا کے ذریعے سمندر تک اور پھر پوری دنیا میں پہنچایا جاتا ۔
اس طرح ہاکڑا وادی کے لوگ اپنے ہاتھ کے ذریعے بنائی گئی چیزوں کے ذریعے معاش کما کر گزر بسر کرتے ،خوشی کے موقع پر لوک ہاکڑا گیت گائے جاتے جنہیں سہرے کہا جاتا تھا۔ روہی کی دیو مالائی روایت میں جب اس زمین پر ایک عورت کے ساتھ نا انصافی ہوئی تو ہاکڑا دریا نے اپنا رخ تبدیل کر لیا۔
تاریخی طور پر جب دریا نے اپنا رخ تبدیل کیا اور زمینی تبدیلی آئی تو درخت سوکھنا شروع ہو گئے ،اور دریا کی زر خیز مٹی ریت میں تبدیل ہو گئی ۔ ہوا کے تیز جھونکوں نے ریت کو ٹیلوں میں تبدیل کر دیا ،اس طرح ہاکڑ کا پورا زرخیز علاقہ ٹیلوں کی شکل اختیار کر تے ہوئے صحرا میں تبدیل ہوگیا۔
ان تبدیلیوں کے وجہ سے بہت سے لوگ اس علاقے سے کوچ کر گئے مگر کچھ لوگ اپنی دھرتی کے ساتھ پیار کا ثبوت دیتے ہوئے اس علاقہ چولستان میں رہ گئے۔ ان لوگوں نے اپنی ثقافت کو بھوک اور پیاس میں بھی زندہ رکھا اور آج جو چولستانی ثقافت زندہ ہے ،انہی لوگوں کی مرہون منت ہے۔
چولستان کی اس ثقافت کو زندہ رکھنے میں یہاں کے فنکاروں، گلوکاروں اور شاعروں کا انتہائی اہم کردار رہا ہے۔ فنکاروں نے اپنی فن، گلوکاروں نے اپنے سریلے گیتوں اور شاعروں نے اپنی خوبصورت شاعری سے چولستان کی اس شناخت کو عوام کے دلوں میں قائم رکھا۔
خواجہ غلام فرید کا مزار تصویر: وکیپیڈیا
خواجہ غلام فرید کا مزار
برِ صغیر پاک و ہند کے معروف صوفی روحانی بزرگ خواجہ غلام فرید ایک عظیم سرائیکی شاعر بھی تھے جن کو چولستان کے علاقے سے، روہی کی صحرا نما سرزمیں سے والہانہ الفت تھی۔ خواجہ غلام فرید نے اپنی شاعری میں چولستان میں بسنے والے لوگوں کی محرومیوں کا ذکر کیا ہے اور چولستان کے صحرا نما سززمیں کے مختلف موسموں کو انتہائی خوبصورت الفاظ میں بیان کیا ہے۔
ان کی شاعری میں چولستان کی تپتی ریت سے لے کر برسات کے موسم کے نظارے تک اور روہی کی ٹھنڈی راتوں سے لے کر بیابانوں میں اگے پودوں تک، ہر طرح کا منظر ملتا ہے۔ حضرت خواجہ غلام فرید نے چولستان کو پہلی بار روہی کا نام اپنی شاعری میں دیا۔ آج اس چولستان کو روہی بھی کہا جاتا ہے اور یہ علاقہ جنوبی پنجاب کے تین اضلاع بہاولنگر، بہالپوراور رحیم یارخان تک پھیلا ہوا ہے۔
جب یہ صحرا سندھ میں داخل ہوتا ہے تو اسے تھر کہا جاتا ہے۔ علاقوں کی مناسبت سے ان کے نام تو تبدیل ہیں لیکن یہاں کے بسنے والے لوگوں کا کلچر ایک جیسا ہے۔ آج کل جو شاعر اپنی شاعری کے ذریعے چولستانی کلچرکو زندہ رکھے ہوئے ہیں ان میں جہانگیر مخلص امانﷲ ارشد اور شہزاد روہیلہ شامل ہیں۔ ان شعرا کی شاعری کو چولستان کے فوک گلوکاروں نے لوک گیتوں کا خوبصورت رنگ دے کر عوام میں مقبول کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
فقیرا بھگت کا ایک پوسٹر جس کے بیک گراؤنڈ میں قلعہ دراوڑ ہے تصویر: پاک وائسز
فقیرا بھگت کا ایک پوسٹر جس کے بیک گراؤنڈ میں قلعہ دراوڑ ہے
چولستان کے نامی گرامی فوک گلوکاروں میں فقیرا بھگت سرفہرست ہیں۔ فقیرا بھگت نے لوک گیتوں کے حوالے سے پوری دنیا میں نام کمایا اور اپنے فوک گیتوں کے ذریعے اپنے علاقے کی محرومیوں کو اور اپنے چولستانی کلچر کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچایا۔ اس طرح اپنے فن کے ذریعے انہوں نے چولستانی کلچر کو زندہ رکھنے میں حصہ ادا کیا۔
فقیرا بھگت نے 26 جنوری 1986 کو ریڈیو پاکستان میں اپنی فوک گلوکاری کا آغاز کیا اور بہت کم عرصے میں ایک مقبول فوک چولستانی گلوکار بن کر ابھرے۔ انہوں نے زیادہ تر خواجہ غلام فرید، سچل سرمست اور بابا بلھے شاہ کے کلام کو فوک گیتوں کی شکل دی۔ فقیرا بھگت نے لندن ،بھارت اور جرمنی میں بھی اپنے فن کا لوہا منوایا۔ لندن حکومت کی طرف سے انہیں فوک ایوارڈدیا گیا.
مگر پاکستان میں اس عظیم فنکار کے فن کی قدر نہ کی گئی اور 11 مئی 1999 کو فقیرا بھگت کالے یرقان میں مبتلا ہونے کے بعد دم توڑ گئے۔ ان کی زندگی کے آخری سال کسمپرسی کے عالم میں گزرے اور ناکافی وسائل نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنی بیماری کا علاج نہ کروا سکے۔ ان کی وفات کے 12 سال بعد حکومتِ پاکستان نے ان کے فن کا اعتراف کیا اور ان کو صدارتی تمغہ امتیاز سے نوازا گیا جو ان کی بیوی نے وصول کیا۔
نامور سرائیکی شاعر اور قوم پرست رہنما عاشق بزدار کے مطابق فقیرا بھگت کا کردار اس لئے بھی انتہائی اہم تھا کہ وہ چولستان کے آخری عظیم فوک گلوکار تھے۔ ان کے مطابق فقیرا بھگت کے بعد اب تک ان جیسا فوک گلوکار چولستان کی سرزمیں میں پیدا نہیں ہوا۔
چولستانی ثقافتی فوک موسیقی کی یہ عظیم آواز تو حکومتی نا قدری کا شکار ہو گئی مگر اس کے بعد بھی اقتدار نشینوں نے چولستانی ثقافت کو زندہ رکھنے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں لی۔ فقیرا بھگت کے بعد ان کے بیٹے موہن بھگت نے بھی فوک موسیقی کی راہ چنی اور آج انہیں فوک موسیقی کے بہترین گلوکاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔
 ہر سال 11 مئی کو چولستان میں فقیرا بھگت کی برسی منائی جاتی ہے جس میں ملک بھر سے دانش ور، شعرا حضرات اور فوک گلوکار جمع ہوتے ہیں. اس موقع پر چولستانی کلچر کے حوالے سے رات بھر دانش ور اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں اور گلو کار اور فنکار اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ رات بھر جاری رہنے والا یہ پروگرام علاقے کے مخیر خضرات کے تعاون سے چلتا ہے جبکہ حکومت چولستانی کلچر کے فروغ کے لئے اس طرح کی تقاریب منعقد کرانے میں بالکل کوئی دلچسپی نہیں لیتی۔

موہن بھگت فوک گیت گاتے ہوئے
اس حوالے سے فقیرا بھگت کے بیٹے موہن بھگت کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت سندھ کے کلچر کو زندہ رکھنے کے لئے فنکاروں کی معاشی معاونت کر تی ہے اور ہر تین ماہ بعد سندھ میں کلچر ل پروگرام کئے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ فوک گلوکاروں کے لئے سندھ حکومت ہر ماہ تیس ہزار روپے کا وظیفہ بھی دیتی ہے۔ دوسری طرف پنجاب میں وسائل تو موجود ہیں مگر یہ وسائل صرف لاہور کی حد تک محدود رہتے ہیں جبکہ چولستان کے کلچر کو زندہ رکھنے کی خاطر حکومت کوئی اقدامات نہیں کر رہی۔ ان کا کہنا ہے کہ اس لئے چولستانی کلچرآخری مراحل میں داخل ہو چکا ہے۔
موہن بھگت کا یہ بھی کہنا تھا کہ آرٹس کونسل میں بھی ہونے والے سرکاری ایونٹس میں بھی چولستانی فنکاروں کو نہیں بلوایا جاتا۔  اگر حکومت چولستانی فنکاروں گلوکاروں اور شعرا حضرات کو سپورٹ کرے تو انٹر نیشنل سطح پر چولستانی کلچرکو فروغ دیا جا سکتا ہے ۔

No comments:

Post a Comment