
رپورٹ ایم اقبال انجم سے
سلطان شاہ بخاری کے بارے میں کسی کو بھی یہ معلوم نہیں کہ وہ کب او ر کہاں سے یہاں آئے، قلعہ مروٹ کے قریب ایک ٹوبہ بھی سلطان شاہ کے نام سے موسوم ہے۔ آپ کا میلہ نہیں ہو تا لیکن سال کے سال لوگ جمع ضروری ہوتے ہیں۔ روایت ہے کہ ایک مرتبہ آپ قلعہ میر گڑھ کے ٹوبے پر اپنے مال ڈنگر کو پانی پلانے کے لیے رُکے لیکن وہان بھیڑ بہت تھی۔ لوگوں نے آپ سے کہا کہ تم اپنی باری کا انتظار کرو پہلے ہم اپنے جانوروں کو پانی پلالیں پھر تم اپنے جانور یہاں لے آنا، آپ نے لوگوں سے بہت کہا کہ میرے ڈنگر بہت پیاسے ہیں لیکن انہوں نے آپ کی ایک نہ مانی۔ اپ قلعے کے حاکم کے پاس پہنچے اور مِنّت کی اس نے بھی وہی جواب دیا جسے سُن کر آپ نے دعامانگی تو اسی وقت بارش شروع ہوگئی پھر آپ نے قلعے کے حاکم کو بددعا دی اور کہا تم کوٹ کے اندر مروگے اور دروازہ توڑ کر تمہیں باہر نکالا جائے گا اور یہی ہوا۔ وہ قلعے کے اندر ہی مرا اور قلعے کا دروازہ توڑ کر اسے باہر نکالا گیا۔ یہاں بھٹی، مغل، پریاڑ، بُھٹے، پنوار اور بوہڑآباد ہیں۔ چولستان کے دوسرے علاقوں کی طرح موج گڑھ میں بھی وہی رسم و رواج ہیں، شادی کرتے وقت رشتہ داروں اور قوم برادری کو اولیت دی جاتی ہے۔ لڑکے کو کھارے چڑھایا جاتا ہے۔ اس سے پہلی رات اس کے جسم پرآٹے میں ہلدی ملا کر اُبٹن مل دیا جاتا ہے۔ جسم پر ہلدی ملا آٹا ملنے کی رسم کو ’’چیکوں‘‘ بولتے ہیں۔ اور سہرے کو یہاں ’’مکنا‘‘ کہتے ہیں برات اونٹوں پر سوار ہو کر جاتی ہے جنہیں رنگ برنگے کپڑوں اور زیورات سے سجایا جاتا ہے۔ موج گڑھ میں اونٹ لڑانے کی رسم پرانی اور عام ہے بعض لوگ خاص لڑنے والے اونٹ پالتے ہیں کبھی کبھی شرطیں بھی لگتی ہیں۔ دین گڑھ قلعہ دین گڑھ دوسرے قلعوں کی نسبت چھوٹا معلوم ہوتا ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ اس کا بڑا حصہ ریت میں مل چکا ہے۔ اس قلعہ کے ساتھ ہی ایک کنواں بھی ہے۔ اس قلعہ کے بارے میں بھی لوگوں کو زیادہ معلومات حاصل نہیں، البتہ ایک نوجوان نے جو قلعے کے قریب ہی کھڑا تھا مجھے بتایا کہ یہاں ایک لکڑی پر خان خدا بخش کا نام لکھا ہوا ملا تھا، اس کا اتنا کہنا تھا کہ میرا ذہن قلعہ موج گڑھ کے ایک حاکم خان خدا بخش کی طرف چلا گیا میرے خیال میں دین گڑھ کا چھوٹا قلعہ واقعی خان خدا بخش نے بنوایا ہوگا، دین گڑھ اور موج گڑھ کا فاصلہ چند میل ہے اور میرے خیال میں جب خان خدا بخش موج گڑھ کے قلعہ کا حاکم ہوگا تو اس نے دین گڑھ کے قلعہ کی تعمیر کی ہوگی۔ یہاں شیخ، لاڑ، دین دار، کمہار اور چڑہوئے آباد ہیں۔ شیخ یہاں کی سب سے مال دار قوم ہے جو اونٹوں کا کاروبار کرتی ہے۔ دین دار لوئیاں، کمبل اور فلاسیاں بنتے ہیں۔ چڑھوئے زیادہ تر شیخوں کا مال ڈنگر چراتے ہیں۔ قلعہ مروٹ لوگوں کا خیال ہے کہ راجہ مہروٹ کے نام پر اس قلعہ کا نام مہروٹ رکھا گیا تھا اور بعد میں بگڑ کر مروٹ بن گیا۔ محققین نے بھی اپنی کتابوں میں یہی درج کیا ہے کہ اس قلعے کا بانی مہروٹ تھا۔ لیکن بعد میں یہ قلعہ مختلف ہاتھوں سے ہوتا ہوا عباسی خاندان کے قبضہ میں آگیا۔ اس کے نزدیک ہی دو مسجدیں بھی ہیں جو بعد میں تعمیر کی گئیں اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انہیں شہنشاہ اکبر نے بنوایا تھا۔ مروٹ میں رہنے والے لوگوں کا خیال ہے کہ یہ ملتان اور دلی کے قدیم راستہ پر واقع ہے اس لیے کسی زمانے میں یہ ایک اہم قلعہ رہا ہوگا۔ اس قلعہ کے ارد گرد بڑی بڑی رہائش گاہیں بھی تعمیر کی گئی ہیں۔ قلعہ مروٹ کے بارے میں بہت زیادہ تحقیق ہوچکی ہے اور بہت سی باتیں کتابوں میں درج ہوچکی ہیں، جن کا یہاں دہرانا مناسب نہیں۔ مروٹ کا قلعہ لق و دق صحرا میں واقع ہے لیکن قریب ہی مروٹ کا نیا شہر آباد ہوچکا ہے جو کہ پنجاب کے عام دیہاتوں جیسا ہے، یہاں آباد کاروں کے اپنے رقبے ہیں جہاں اچھی فصل ہوتی ہے۔
سلطان شاہ بخاری کے بارے میں کسی کو بھی یہ معلوم نہیں کہ وہ کب او ر کہاں سے یہاں آئے، قلعہ مروٹ کے قریب ایک ٹوبہ بھی سلطان شاہ کے نام سے موسوم ہے۔ آپ کا میلہ نہیں ہو تا لیکن سال کے سال لوگ جمع ضروری ہوتے ہیں۔ روایت ہے کہ ایک مرتبہ آپ قلعہ میر گڑھ کے ٹوبے پر اپنے مال ڈنگر کو پانی پلانے کے لیے رُکے لیکن وہان بھیڑ بہت تھی۔ لوگوں نے آپ سے کہا کہ تم اپنی باری کا انتظار کرو پہلے ہم اپنے جانوروں کو پانی پلالیں پھر تم اپنے جانور یہاں لے آنا، آپ نے لوگوں سے بہت کہا کہ میرے ڈنگر بہت پیاسے ہیں لیکن انہوں نے آپ کی ایک نہ مانی۔ اپ قلعے کے حاکم کے پاس پہنچے اور مِنّت کی اس نے بھی وہی جواب دیا جسے سُن کر آپ نے دعامانگی تو اسی وقت بارش شروع ہوگئی پھر آپ نے قلعے کے حاکم کو بددعا دی اور کہا تم کوٹ کے اندر مروگے اور دروازہ توڑ کر تمہیں باہر نکالا جائے گا اور یہی ہوا۔ وہ قلعے کے اندر ہی مرا اور قلعے کا دروازہ توڑ کر اسے باہر نکالا گیا۔ یہاں بھٹی، مغل، پریاڑ، بُھٹے، پنوار اور بوہڑآباد ہیں۔ چولستان کے دوسرے علاقوں کی طرح موج گڑھ میں بھی وہی رسم و رواج ہیں، شادی کرتے وقت رشتہ داروں اور قوم برادری کو اولیت دی جاتی ہے۔ لڑکے کو کھارے چڑھایا جاتا ہے۔ اس سے پہلی رات اس کے جسم پرآٹے میں ہلدی ملا کر اُبٹن مل دیا جاتا ہے۔ جسم پر ہلدی ملا آٹا ملنے کی رسم کو ’’چیکوں‘‘ بولتے ہیں۔ اور سہرے کو یہاں ’’مکنا‘‘ کہتے ہیں برات اونٹوں پر سوار ہو کر جاتی ہے جنہیں رنگ برنگے کپڑوں اور زیورات سے سجایا جاتا ہے۔ موج گڑھ میں اونٹ لڑانے کی رسم پرانی اور عام ہے بعض لوگ خاص لڑنے والے اونٹ پالتے ہیں کبھی کبھی شرطیں بھی لگتی ہیں۔ دین گڑھ قلعہ دین گڑھ دوسرے قلعوں کی نسبت چھوٹا معلوم ہوتا ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ اس کا بڑا حصہ ریت میں مل چکا ہے۔ اس قلعہ کے ساتھ ہی ایک کنواں بھی ہے۔ اس قلعہ کے بارے میں بھی لوگوں کو زیادہ معلومات حاصل نہیں، البتہ ایک نوجوان نے جو قلعے کے قریب ہی کھڑا تھا مجھے بتایا کہ یہاں ایک لکڑی پر خان خدا بخش کا نام لکھا ہوا ملا تھا، اس کا اتنا کہنا تھا کہ میرا ذہن قلعہ موج گڑھ کے ایک حاکم خان خدا بخش کی طرف چلا گیا میرے خیال میں دین گڑھ کا چھوٹا قلعہ واقعی خان خدا بخش نے بنوایا ہوگا، دین گڑھ اور موج گڑھ کا فاصلہ چند میل ہے اور میرے خیال میں جب خان خدا بخش موج گڑھ کے قلعہ کا حاکم ہوگا تو اس نے دین گڑھ کے قلعہ کی تعمیر کی ہوگی۔ یہاں شیخ، لاڑ، دین دار، کمہار اور چڑہوئے آباد ہیں۔ شیخ یہاں کی سب سے مال دار قوم ہے جو اونٹوں کا کاروبار کرتی ہے۔ دین دار لوئیاں، کمبل اور فلاسیاں بنتے ہیں۔ چڑھوئے زیادہ تر شیخوں کا مال ڈنگر چراتے ہیں۔ قلعہ مروٹ لوگوں کا خیال ہے کہ راجہ مہروٹ کے نام پر اس قلعہ کا نام مہروٹ رکھا گیا تھا اور بعد میں بگڑ کر مروٹ بن گیا۔ محققین نے بھی اپنی کتابوں میں یہی درج کیا ہے کہ اس قلعے کا بانی مہروٹ تھا۔ لیکن بعد میں یہ قلعہ مختلف ہاتھوں سے ہوتا ہوا عباسی خاندان کے قبضہ میں آگیا۔ اس کے نزدیک ہی دو مسجدیں بھی ہیں جو بعد میں تعمیر کی گئیں اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انہیں شہنشاہ اکبر نے بنوایا تھا۔ مروٹ میں رہنے والے لوگوں کا خیال ہے کہ یہ ملتان اور دلی کے قدیم راستہ پر واقع ہے اس لیے کسی زمانے میں یہ ایک اہم قلعہ رہا ہوگا۔ اس قلعہ کے ارد گرد بڑی بڑی رہائش گاہیں بھی تعمیر کی گئی ہیں۔ قلعہ مروٹ کے بارے میں بہت زیادہ تحقیق ہوچکی ہے اور بہت سی باتیں کتابوں میں درج ہوچکی ہیں، جن کا یہاں دہرانا مناسب نہیں۔ مروٹ کا قلعہ لق و دق صحرا میں واقع ہے لیکن قریب ہی مروٹ کا نیا شہر آباد ہوچکا ہے جو کہ پنجاب کے عام دیہاتوں جیسا ہے، یہاں آباد کاروں کے اپنے رقبے ہیں جہاں اچھی فصل ہوتی ہے۔
No comments:
Post a Comment