میلوں تک پھیلے ویرانے، سوکھی ہوئی جھاڑیاں اور آنکھوں میں حیرت اور تجسس لیے چند بچّے، جنھیں دیکھ کر یہ یقین کرنا مشکل لگتا ہے کہ انڈس ڈیلٹا کا یہ علاقہ کبھی زرخیز تھا۔۔
دنیا کی آب و ہوا تیزی کے ساتھ تبدیل ہو رہی ہے۔ پاکستان بھی اس ماحولیاتی تبدیلی سے دوچار ہے۔ خاص طور پر انڈس ڈیلٹا میں واقع ہونے والی تبدیلیاں اس کے اردگرد آباد سینکڑوں لوگوں کی زندگی کے لیے خطرہ بن رہی ہیں۔
کیٹی بندر پر سمندر دریائے سندھ کو نگل رہا ہے۔نمکین پانی میٹھے پانی کو دہکیلتا ہوا اوپر چڑھا چلا آ رہا ہے ۔جو صرف علاقے کا نقشہ ہی تبدیل نہیں کر رہا بلکہ ساحل کے اردگرد آباد ہزاروں مچھیروں کے خاندانوں کے لیے شدید خطرہ بن چکا ہے۔
کیٹی بندر پر واقع ایک گاؤں اللہ ڈنو پٹیل میں جھونپڑیوں میں رہنے والے چند خاندان یہاں کی بربادی اور بدحالی کی جیتی جاگتی مثال ہیں
نوجوان زاہدہ اپنے شوہر اور دو بچوں کے ساتھ ایک ایسے گھر میں رہتی ہے جو زندگی کی تمام تر بنیادی سہولتوں سے محروم ہے، وہ اپنے بچوں کے مستقبل سے کچھ زیادہ پر امید نہیں ۔ زاہدہ کے جھونپڑے کے قریب ہی اس کے کچھ رشتے دار بھی مقیم ہیں۔ مرد روزی کی تلاش میں گھر سے باہر گئے ہوئے تھے۔
سمندر نے ان کے گاؤں کو دھکیل کرجتنی دور پھینکا ان کا ذریعہ معاش مچھلیاں بھی ان سے اتنی ہی دور ہو گئیں ۔ زمیں کی زرخیزی ختم ہو چکی ہے۔ یہاں اب کچھ نہیں اگتا۔ بستر پر بیٹھی امیر زادی نے سالوں سے سبزی نہیں کھائی۔ اردگرد کوئی پھل دار یا سایہ دار درخت نظر نہیں آتا۔ دانہ چگتی مرغیوں پر نظر ڈالتے ہوئے میں نے پوچھا کہ مرغیاں فروخت کرنے کے لیے پالتے ہیں یا اپنے کھانے کے لیے تو معلوم ہوا کہ یہ مرغیاں مہمانوں کے لیے پالی جاتی ہیں۔کبھی کبھی گھر والے بھی کھا لیتے ہیں۔ میں نے گائے اور بکرے کے گوشت کی بابت دریافت کیا تو مجھے بتایا گیا کہ زمین کی زرخیزی ختم ہونے کے سبب جانوروں کے لیے چارہ تک نہیں اگایا جا سکتا۔ کھانے کے لیے صرف مچھلی ہے۔ نہ سبزی نہ گائے بکرے کا گوشت اور نہ ہی دودھ میسر ہے۔
یہاں کی آبادی کی آمدنی کا اسی فیصدخوراک پر خرچ ہو جاتا ہے۔ اس صورتحال میں سب سے زیادہ متاثر عورت ہے۔ جو سندھ کی روایات کے مطابق خوراک کا بہترین حصہ شوہر اور بیٹوں کو دینے کی عادی ہے۔ کچھ بچ جائے تو وہ کھا لیتی ہے۔
عالمی بینک کے ایک جائزے کے مطابق ساحلی علاقوں میں رہنے والے مچھیروں کے خاندان کی خوراک دالوں، سبزی، دودھ اور گوشت سے محروم ہے۔اکثرچاول، پیاز اور مرچ ہی پر گزارا کیا جاتا ہے۔دودھ ، گوشت اور سبزیاں میسر نہ آنے کے سبب عورتیں اور بچے غذائی قلت اور خون کی کمی کا شکار ہو رہے ہیں۔

دریائے سند ھ کے کنارے صدیوں سے آبادمچھلی پکڑنے کے پیشے سے وابستہ ان خاندانوں کو غذا کی قلت نے بڑے پیمانے پر نقل مکانی پر مجبور کر دی
انیس سو نوے کی دہائی تک ضلع ٹھٹھہ میں بہترین دودھ دینے والی بھینسیں اور گائے وافر تعداد میں موجود تھیں ۔اس کے علاوہ بھیڑ،بکری، اونٹ، گھوڑے اور خچر بھی دستیاب تھے۔ مگر میٹھے پانی کی عدم دستیابی اور کھیتی باڑی کے لیے موزوں زمینیں نہ ہونے کی سبب جانوروں کی خوراک اور چارے کی قلت ہونے لگی۔۔جس کی وجہ سے رفتہ رفتہ انڈس ڈیلٹا کے قریب ان جانوروں کی زندگی ختم ہونے لگی۔

کیٹی بندر پر واقع ایک گاؤں اللہ ڈنو پٹیل میں جھونپڑیوں میں رہنے والے چند خاندانوں سے یہاں کی بربادی اور بدحالی کی جیتی جاگتی مثال ہے۔
دریائے سند ھ کے کنارے صدیوں سے آبادمچھلی پکڑنے کے پیشے سے وابستہ ان خاندانوں کو غذا کی قلت نے بڑے پیمانے پر نقل مکانی پر مجبور کر دیا، مگر اب بھی بہت سے ایسے ہیں جو مشکلات جھیل کر بھی اس زمین سے اپنی محبت کے سبب وہیں آباد ہیں۔
فشر فوک فورم کے محمد علی شاہ کا کہنا ہے کہ انڈس ڈیلٹا کی تباہی کا ایک بڑا سبب مینگروز درختوں کی کٹائی ہے۔ محمد علی شاہ نے حکومت کو توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ مینگروز لگانے سے زیادہ ان کی حفاظت ضروری ہے۔ یاد رہے کہ حکومت دو بار یہاں مینگروز لگانے کا عالمی رکارڈ قائم کرچکی ہے۔
No comments:
Post a Comment