Monday, October 26, 2015

زلزلے سے پاکستان میں ہلاکتیں 206 ہوگئیں 1300 سے زائد زخمی

پاکستان میں آفات سے نمٹنے کے قومی ادارے این ڈی ایم اے کا کہنا ہے کہ پیر کو آنے والے زلزلے کے نتیجے میں ہلاکتوں کی مجموعی تعداد 206 تک پہنچ گئی ہے جبکہ کم سے کم 1381 افراد کے زحمی ہونے کی اطلاع ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ زلزلے سے سب سے زیادہ نقصان خیبر پختونخوا کے مالاکنڈ ڈویژن میں ہوا ہے۔
انھوں نے کہا کہ زلزلے سے شاہراہ قراقرام پانچ مقامات پر بلاک ہو گئی ہے۔
سب سے زیادہ نقصان اب تک صوبہ خیبر پختونخواہ میں ہوا ہے جہاںمرنے والوں کی تعداد 160 سے تجاوز کر گئی ہے۔۔ اس کے بعد فاٹا سے کم سے کم 30 افراد کی ہلاک کی اطلاع ہے۔
ریکٹر سکیل پر اس زلزلے کی شدت 7.5 تھی اور اس کا مرکز ہندو کش کا پہاڑی علاقہ ہے جو کہ ڈسٹرکٹ جرم کے جنوب مغرب میں 45 کلومیٹر دور واقع ہے۔
پاکستان کے زلزلہ پیما مرکز کا کہنا ہے کہ زلزلہ پاکستانی وقت کے مطابق 2:09 منٹ پر آیا۔ زلزلے کی وجہ سے مختلف علاقوں میں کچے مکانات منہدوم ہو گئے ہیں۔
صوبہ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلی پرویز خٹک نے میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ صوبے کے مختلف علاقوں میں ہونے والے نقصان کے متعلق معلومات اکھٹی کر ر ہے ہیں۔ وزیر اعلی کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت کسی بھی ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے تیار ہے۔
پاکستان کے صوبے پنجاب کے ریسکیو ذرائع کے مطابق صوبے میں زلزلے کے نتیجے میں پانچ ہلاک اور67 افراد زخمی ہوئے ہیں۔
بی بی سی سے گفتگو میں ادارے کے ترجمان عادل ظہور نے بتایا کہ اب تک موصول ہونے والی تفصیلات کے مطابق سب سے زیادہ ہلاکتیں اور نقصانات باجوڑ ایجنسی میں ہوئے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ سب سے زیادہ باجوڑ میں 26 افراد ہلاک ہوئے۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کو فون کیا ہے اور زلزلے میں ہونے والے نقصان پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔
مودی نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ نواز شریف سے ٹیلفونک بات چیت میں انھوں نے زلزلے میں قیمتی جانوں کے ضیاع پر افسوس کا اظہار کیا ہے اور بھارت نے پاکستان کو ہر ممکن تعاون کی پیشکش کی ہے۔
Image copyrightEPA
Image captionپشاور شہر کے مختلف علاقوں سے نقصانات کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں
زلزلے میں ہلاکتیں
خیبر پختونخوا162 ہلاک1217 زخمی
گلگت بلتستان8 ہلاک29 زخمی
قبائلی علاقے30 ہلاکزخمی59
پنجاب5 ہلاک67 زخمی
مجموعی ہلاکتیں2061381
اب تک ملنے والے تفصیلات کے مطابق زلزلے سے سب سے زیادہ تباہی خیبر پختونخوا کے علاقے میں ہوئی ہے لیکن پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد سمیت ملک کے مختلف شہروں میں بھی شدید زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے ہیں۔
بی بی سی کے پشاور میں نامہ نگار کے مطابق شہر کے مختلف علاقوں میں مکانات کے نقصان اور منہدم ہونے کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔
پاکستان کے صوبے گلگت بلتسان کے وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ ہنزہ اور نگر کے علاقے میں زلزلے کے بعد مٹی کے تودے گرے ہیں۔
پاکستان فوج کے ترجمان عاصم باجوہ نے کہا ہے کہ پاکستان میں آنے والے زلزلے کے بعد فوج، اور ہیلی کاپٹر حرکت میں آگئے ہیں جبکہ سی ایم ایچ ہسپتال اور ماہر امدادی کارکنوں کو ہائی الرٹ کر دیا گیا ہے۔
Image copyrightEPA
Image captionپشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں بڑی تعداد میں زخمیوں کو لایا جا رہا ہے

Saturday, October 24, 2015

خانہ بدوشوں کی بستی صحراء چولستان روپورٹ ایم اقبال انجم سے

چولستان کے خانہ بدوش

ایم اقبال انجم سے

اس سے قبل جن بستیوں کا ذکر آیا ہے ان کے علاوہ کچھ اور بستیاں مستقل حیثیت اختیار کرچکی ہیں اور یہاں رہنے والے بھی مستقل ہیں۔ لیکن بہت سے ٹوبے اور بستیاں غیر مستقل ہیں ان بستیوں کے لوگ وقتی طور پر کسی ٹوبے کے نزدیک جھگیاں لگا لیتے ہیں مگر جب پانی ختم ہوجاتا ہے تو کسی اور ٹوبے کی طرف ہجرت کرجاتے ہیں۔ ان ٹوبوں میں سے کچھ کے نام ہیں اور کچھ بے نام ہیں اور میرے خیال میں چولستان کے یہی لوگ چولستان کی ثقافت اور رسم و رواج کے اصل مالک ہیں جو کسی جگہ مستقل قیام نہیں کرتے بلکہ پورے چولستان میں گھومتے رہتے ہیں۔ وہ اب بھی شہری اور صنعتی زندگی سے بچے ہوئے ہیں اور اپنی قدیم رسموں اور ورثے کے محافظ ہیں۔ عورتوں اور مردوں کے لباس روایتی اور خاص چولستانی ہیں۔ بھیڑیں، گائیں اور اونٹ پالتے ہیں۔ انہوں نے اپنے جانوروں کو ایسی عادت ڈال رکھی ہے کہ وہ ہفتے میں صرف ایک مرتبہ پانی پیتے ہیں۔ ان میں زیادہ بلوچ، راجپوت، در سلے ہیں۔ یہ لوگ بارش کے لیے دعا مانگتے رہتے ہیں کیوں کہ بارش ہونے سے چولستان میں بہار آجاتی ہے، بوٹیاں سر سبز ہوجاتی ہیں اور جانوروں کے لیے پانی اور چارہ وافر مقدار میں فراہم ہوتا ہے۔ بارش کے بعد وہ گھاس خوب اُگ آتی ہے جو خس کی ٹٹیاں بنانے کے کام آتی ہے جسے یہ لوگ اپنی جھونپڑیاں بنانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ چولستان کے عام لوگوں کی طرح یہ خانہ بدوش بھی اپنے جانوروں کے گلے میں بڑے بڑے ٹل اور گھنٹیاں باندھتے ہیں اور انہیں چرنے کے لیے کھلا چھوڑ دیتے ہیں اور ان کے جانور چرنے کے بعد خود بخود واپس آجاتے ہیں۔ ایک شخص نے مجھے بتایا کہ گھنٹیوں کی بے شمار آوازوں میں سے وہ اپنی گائے کے گلے میں پڑی ہوئی گھنٹی کی آواز پہچان لیتا ہے۔ ان لوگوں کی زبان خالص سرائیکی اور سرائیکی ملی مارواڑی بھی ہے۔ عام خانہ بدوشوں کی طرح وہ بھی ڈرے ڈرے اور سہمے ہوئے رہتے ہیں۔ کسی شہری بابو کو دیکھ لیں تو ان کی مسکینی کود کر چہرے پر بیٹھ جاتی ہے اور کچھ دیر بعد بے چینی سی محسوس کرنے لگتے ہیں۔ یہ لوگ چولستان کرافٹس کے اصل مالک ہیں۔ مستقل رہائش رکھنے والوں نے ان کرافٹس کو کمرشل سطح پر اپنا لیا ہے لیکن چولستان کے خانہ بدوش ذاتی استعمال کے لیے چیزیں بناتے ہیں جن میں اونٹ کے بالوں کی فلاسیں، لوکاریں اور اونٹوں کی سجاوٹ کا سامان شامل ہے اس کے علاوہ یہ لوگ اونٹ کی کھال سے گھی رکھنے کے کپے بھی بناتے ہیں۔

پیاسوں کا قبروستان صحراء چولستان رپورٹ ایم اقبال انجم سے




چولستانی روہیلوں کا سب سے بڑا مسئلہ پانی ہے۔ چولستان کے کنوﺅں کا پانی کھارا ہونے کی وجہ سے انسانوں اور مویشیوں کے پینے کے قابل نہیں ہوتا۔ پانی کی قلت دور کرنے کیلئے چولستانی ٹوبوں میں پانی جمع کرلیتے ہیں جہاں سے وہ اپنی ضروریات پوری کرتے ہیں لیکن ان ٹوبوں کاگندا پانی ان کی جوانیاں چاٹ جاتا ہے کیونکہ ایک ہی ٹوبے پر مال مویشی پانی پیتے ہیں اور وہی پانی انسان بھی استعمال کرتے ہیں۔ چولستان میں لوگ راستہ بھٹکنے کی وجہ سے بھوک اور پیاس سے مر جاتے ہیں۔ چولستان میں بے شمار پیاسوں کی قبریں موجود ہیں۔ ہلاک ہونے والے پہلے راستہ بھول جاتے ہیں اور پھر بھٹکنے کے دوران اپنی چھاگل کا پانی صرف کر بیٹھتے ہیں۔ چولستانی مسافروں کا یہ دستور العمل ہے کہ سفر پر جانے سے پہلے راستے میں اگر پیاسے کی قبر پڑے تو اس پر پانی ڈالتے ہیں۔ اس عمل سے ان کا خیال ہے کہ ایک تو پیاس سے مرنے والا باآواز بلند پانی نہیں مانگے گا اور دوسرا ان کا سفر عافیت سے طے ہوگا اور راستے میں پانی کی تنگی نہ آئے گی۔ دراوڑکے اطراف میں ایسے 13 پیاسو ں کی قبریں موجود ہیں۔ جب کوئی چولستانی راستہ بھولنے کی وجہ سے اس المیے سے دوچار ہو کر لاچار ہو جائے یعنی نہ تو اس کا احساس ہمت بحال ہو اور نہ ہی کوئی مددگار پانی لے کر پہنچے تو وہ اپنے تن کے کپڑے پگڑی اور جوتے قریب کی جھاڑی پر ڈال دیتا ہے اور خود کسی جھاڑی کے سائے میں عریاں لیٹ کر ریت کے نیچے سے ٹھنڈی ٹھنڈی مٹی نکال کر سینے پر ڈالتا ہے۔ صحرا میں نگاہ میلوں دور تک چلی جاتی ہے اس لئے عام حالات میں پانچ چھ میل سے بآسانی کپڑے جوتے اور پگڑی کو جھاڑی پر آویزاں دیکھا جا سکتا ہے۔ اگر کوئی دوسرا چولستانی یہ دیکھ لے تو سمجھ جاتا ہے کہ کسی کی جاں خطرے میں ہے اور فوراً اس کی طرف مدد کیلئے لپکتا ہے۔ سمجھدار اور باخبر چولستانی سفر پر روانہ ہونے سے پہلے خوشبودار صحرائی گھاس ”قطرن“ کی جڑیں چھاگل میں ڈال دیتا ہے تاکہ تروتازہ رہیں، چھاگل کو رسیوں سے باندھ کر گردن میں لٹکا لیا جاتا ہے۔ پانی ختم ہونے کی صورت میں ”قطرن“ کی جڑیں پیاس کی حالت میں چوسنے سے پیاس بجھ جاتی ہے۔ یہ جڑ اس لحاظ میں بڑی کارآمد ہے کہ اس کو مستقل منہ میں رکھنے سے راہ چلتے مسافر کی پانی کی پیاس بہت کم ہو جاتی ہے۔ تاہم پانی، پچاس اور دریا چولستانیوں کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔ صدیوں پہلے جو مسائل صحرا نشینوں کو درپیش تھے آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی ان کے مسائل ویسے کے ویسے اور کوئی پرسان حال نہیں۔ ایک چولستانی کے مسائل کے بارے میں اس سے بہتر کوئی اظہار نہیں کہ میں تسا میڈی دھرتی تسی تسی روہی جائی میکوں آکھ نہ پنج دریائی (اسلم جاوید) (اے دوست میری طرح میری دھرتی بھی پانی کی پیاس سے نڈھال ہے۔ تو مجھے پانچ دریاﺅں کا مالک کہہ کر نہ پکار)

Friday, October 23, 2015

ر پریس کلب جھنگ سینئر صحافی مظفر اقبال دل کا دورہ پڑنے سے انتقال فرما گئے۔

جھنگ( صاحبزادہ زاکررحمان) ممبر پریس کلب جھنگ سینئر صحافی مظفر اقبال دل کا دورہ پڑنے سے انتقال فرما گئے۔اُن کی نمازِ جنازہ لولہے شاہ قبرستان

میں ادا کی گئی جس میں فوٹو گرافرز الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کے نمائندوں کی کثیر تعداد کے علاوہ شہریوں ،وکلاء، مختلف تنظیموں کے عہدیداروں ،عزیز و اقارب ،دوست احباب سیاسی و سماجی شخصیات اور مختلف طبقۂ فکر سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں افراد نے شرکت کی ۔بعد ازاں انہیں ان کے آبائی قبرستان میں سپردِ خاک کر دیا گیا۔اُن کی رسمِ قل خوانی بروز اتوار 25اکتوبر کو 2بجے دوپہر مسجد نورِ سحر سیشن چوک میں ادا کی جائے گی۔ان کی نا گہانی وفات پر صدر جھنگ یونین آف جرنلسٹس رائے منظور احمد عابد اور چئیر مین پریس کلب لیاقت علی انجم نے گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے لواحقین سے اظہارِ ہمدردی کیا۔####

جھنگ میں یوم عاشور عقیدت واحترام سے مناجارہا ہے

جھنگ(صاحبزادہ زاکررحمان
)ضلع بھر میں یوم عاشور کے سلسلے میں جلوسوں اور مجالس کا اہتمام آج ہو گا،تاریخی جلوسوں اور مجالس میں شرکت کیلئے دور دراز کے شہروں سے لوگوں کی بڑی تعداد میں جھنگ آمد،یوم عاشور کے حوالے سے ضلع بھر میں 327 جلوسوں اور 700 کے قریب مجالس کا اہتمام کیا جا رہا ہے ،جنکی سیکورٹی کے فل پروف انتظامات اور ضلع میں امن و امان کی صورتحال کو بر قرار رکھنے کیلئے پٹرولنگ پولیس کی چھٹیاں منسوخ کر دی گئیں۔سیکرٹری ایکسائز اینڈ ٹیکنیشن علی طاہر ،کمشنر فیصل آباد اور آر پی او فیصل آباد کا جلوسوں کے راستوں میں سیکورٹی انتظامات کو فعال اور متاثر کن بنانے کیلئے جھنگ میں خصوصی آمد۔جلوسوں اور مجالس کے باہر تعینات رضا کاروں کو ضلعی حکومت کی جانب سے موک ایکسر سائز اور کسی بھی نا خوشگوار واقع سے نمٹنے کیلئے خصوصی طور پر ٹریننگ بھی دی گئی ہے۔ ضلع بھر میں موجود الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے صحافیوں کی جانب سے انتہائی حساس جلوسوں کی کوریج بھی کی جائے گی۔ ضلع جھنگ ابتدائی دن سے فرقہ وارانہ فسادات میں صف اول میں شمار کیا جاتا ہے اسی وجہ سے یہاں ہمہ وقت اور خصوصی طور پر محرم الحرام کے ان ایام میں قانون نافذ کرنے والے ادارے انتہائی متحرک نظر آتے ہیں اور شہر میں امن و امان کی صورتحال کو بر قرار رکھنے کیلئے بہت سے مثبت اور ٹھوس اقدامات کئے جاتے ہیں ۔ صوبائی اور ڈویژنل گورنمنٹ سے سپیشل فورسز کے اہلکار بھی جھنگ میں خصوصی طور پر تعینات کئے جاتے ہیں۔حساس مقامات میں جھنگ سٹی جو کہ انتہائی قدیم شہر ہے اور کئی صدیوں سے آباد ہے سب سے حساس مانا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہاں سب سے زیادہ سیکورٹی کے سخت ترین انتظامات کئے جاتے ہیں ۔جھنگ سٹی میں یوم عاشور کے موقع پر 36 جلوس برآمد ہونگے جو اپنے روایتی راستوں سے ہوتے ہوئے عصر تک دربار بابا شاہ کبیر میں اختتام پذیر ہونگے۔ اسی طرح لوگوں نے لائسنسی مجالس کے علاوہ اپنے گھروں میں بھی بھی چھوٹی جالس کا اہتمام کیا ہے ۔300 کے قریب چھوٹی بڑی مجالس کا شہر بھر میں اہتمام کیا جائے گا۔جھنگ سٹی کا حساس ترین جلوس تعزیہ ،علم،اور ذوالجناح کے ساتھ جھنگ سٹی روڈ تانگہ اڈہ چوک،ہاتھیوان چوک،دربار با با شاہ کبیر،ناصر چوک،مدینہ چوک ،شیریں چوک ،مسجد اہلحدیث ،باب عمر گیٹ ، ممنا گیٹ ،سبزی منڈی اور میلاد چوک سے ہوتا ہوا دوبارہ اپنے راستے پر دربار بابا شاہ کبیر پر اختتام پذیر ہوتا ہے جہاں عصر کے وقت ماتم،زنجیر زنی اور نوحہ خوانی کی جاتی ہے۔ جلوس کے دوران ذاکرین اور نوحہ خوان لحظہ بہ لحظہ نوحہ خوانی اور اشعار پڑھتے ہوئے جلوس میں شرکاء اور عزاداروں کا خون گرماتے ہیں اور واقع کربلا کی یاد تازہ کرتے ہیں۔ان جلوس کے راستوں میں گھروں کی چھتوں پر بھی سیکورٹی اہلکار تعینات کئے جاتے ہیں اس کے علاوہ روٹ کے قریب 350 داخلی راستوں کو بھی سیل کر دیا جاتا ہے جن سے کسی بھی سواری یا وہیکل کا داخلہ ممنوع او ر نا ممکن ہوتا ہے۔ان جلوسوں کی سیکورٹی کیمروں اور رواں سال تو ڈرون کیمروں کی مدد سے بھی مانیٹرنگ کی جارہی ہے جنکو تھانہ سٹی جھنگ میں کمپیوٹر سیکشن اور ڈی پی او آفس کمپیوٹر سیکشن سے کنٹرول کیا جاتا ہے اور تمام لوگوں پر کڑی سے کڑی نظر رکھی جاتی ہے۔سیکورٹی کے سخت ترین انتظامات اور 2000 کے لگ بھگ سیکورٹی اہلکاروں کی تعیناتی پر شہریوں نے ضلعی حکومت پر اعتماد کا اظہار کیا ہے اور اس بات کی امید ظاہر کی ہے کہ انشا ء اللہ رواں سال بھی شہر میں امن و امان کی صورتحا ل بر قرار رہے گی۔

Thursday, October 22, 2015

سنئیر صحافی ایم اقبال انجم کو خیرپورٹامیوالی میں نیونیوز ٹی وی کا نمائندہ مقررکردیاگیا

نیو نیوز ٹی وی کے ڈرائکٹر نصراللہ خاں ملک

With Zafar Malik (station Head NEO news) Sadique Sajid( Senior Journalist NEO and Javed Baloch ( senior journalist NEO)
Nasrullah Malik's photo.

چولستان میں جنگلی جانوروں کیلئے نیشنل پارک لال سوہانرا کی اراضی میں11 ہزار 3سو66ایکڑ کی مزید توسیع

بہاولپور(رپورٹ ایم اقبال انجم سے)حکمہ جنگلات پنجاب کے کنزرویٹر نے خیرپورٹامیوالی،منڈی یزمان اوربہاول پور کے چولستان میں 
جنگلی جانور ہاتھی، شیر،چیتا، لومڑی، گیدڑ پالنے کیلئے نیشنل پارک لال سوہانرا کی اراضی میں گیارہ ہزار 3سو66ایکڑ کی مزید توسیع کردی اور چولستان میں سالہا سالوں سے مقیم 24ٹوبوں کے رہائشی ہزاروں چولستانی باشندوں کو بے دخلی کے آرڈر جاری کردیئے گئے جس پر چولستان کے 11نمبرداروں سمیت چولستانی باشندوں نے شدید احتجاج کیا اور وزیراعلیٰ پنجاب ،وزیراعظم پاکستان سمیت چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ اور چیف جسٹس سپریم کورٹ سے فوری نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے چولستانی باشندوں نےکنزرویٹر جنگلات کے ان احکامات کی شدید مذمت کرتے ہوئے احتجاج کیا اور کہا کہ ہم چولستانی باشندے سالہاسالوں سے حکومت پنجاب کو ٹیکس دے رہے ہیں اور چولستان میں مقیم ہیں اور اپنے مویشی پال کر گزربسر کر رہے ہیں یہ کہاں کا انصاف ہے کہ انسانوں کو بے دخل کیا جائے اور انسانی بستیوں میں جنگلی جانوروں کو رکھا جائے کیا یہ انسانیت کی توہین نہیں ہے ہم مرتو جائیں گے مگر اپنے گھر اور ٹوبے خالی نہیں کریں گے یہ چولستانی علاقے صدیوں سے ہمارے ہیں ہمارے خاندان یہاں پر مر گئے ہیں ہمارے بڑوں کی یہاں پر قبریں بنی ہوئی ہیں ہم محکمہ چولستان ترقیاتی ادارہ بہاولپور کو سالہاسالوں سے ٹیکس دے رہے ہیں اگر انسانوں سے جنگلی جانور اچھے ہیں تو ہمیں زندہ جلادیا جائے تاکہ نہ انسان ہونگے اور نہ ہی انسانی آبادیاں قائم ہونگی چولستانی نمبرداروں نے احتجاج کے دوران کہاکہ ہمارے بستیوں کے اردگرد جنگلے بنادیئے گئے ہیں اور وہاں پرجنگلی جانور چھوڑے جارہیں جو کہ انسانی حقوق کی پامالی کے مترادف ہے ۔اس موقع پر چولستانی باشندوں نے کنزرویٹر پنجاب کے خلاف نعرے بھی لگائے ۔ 

Wednesday, October 21, 2015

چولستان کے تاریخی مقامات کی رپورٹ ایم اقبال انجم سے

چولستان کے مقامات

رپورٹ ایم اقبال انجم سے

سلطان شاہ بخاری کے بارے میں کسی کو بھی یہ معلوم نہیں کہ وہ کب او ر کہاں سے یہاں آئے، قلعہ مروٹ کے قریب ایک ٹوبہ بھی سلطان شاہ کے نام سے موسوم ہے۔ آپ کا میلہ نہیں ہو تا لیکن سال کے سال لوگ جمع ضروری ہوتے ہیں۔ روایت ہے کہ ایک مرتبہ آپ قلعہ میر گڑھ کے ٹوبے پر اپنے مال ڈنگر کو پانی پلانے کے لیے رُکے لیکن وہان بھیڑ بہت تھی۔ لوگوں نے آپ سے کہا کہ تم اپنی باری کا انتظار کرو پہلے ہم اپنے جانوروں کو پانی پلالیں پھر تم اپنے جانور یہاں لے آنا، آپ نے لوگوں سے بہت کہا کہ میرے ڈنگر بہت پیاسے ہیں لیکن انہوں نے آپ کی ایک نہ مانی۔ اپ قلعے کے حاکم کے پاس پہنچے اور مِنّت کی اس نے بھی وہی جواب دیا جسے سُن کر آپ نے دعامانگی تو اسی وقت بارش شروع ہوگئی پھر آپ نے قلعے کے حاکم کو بددعا دی اور کہا تم کوٹ کے اندر مروگے اور دروازہ توڑ کر تمہیں باہر نکالا جائے گا اور یہی ہوا۔ وہ قلعے کے اندر ہی مرا اور قلعے کا دروازہ توڑ کر اسے باہر نکالا گیا۔ یہاں بھٹی، مغل، پریاڑ، بُھٹے، پنوار اور بوہڑآباد ہیں۔ چولستان کے دوسرے علاقوں کی طرح موج گڑھ میں بھی وہی رسم و رواج ہیں، شادی کرتے وقت رشتہ داروں اور قوم برادری کو اولیت دی جاتی ہے۔ لڑکے کو کھارے چڑھایا جاتا ہے۔ اس سے پہلی رات اس کے جسم پرآٹے میں ہلدی ملا کر اُبٹن مل دیا جاتا ہے۔ جسم پر ہلدی ملا آٹا ملنے کی رسم کو ’’چیکوں‘‘ بولتے ہیں۔ اور سہرے کو یہاں ’’مکنا‘‘ کہتے ہیں برات اونٹوں پر سوار ہو کر جاتی ہے جنہیں رنگ برنگے کپڑوں اور زیورات سے سجایا جاتا ہے۔ موج گڑھ میں اونٹ لڑانے کی رسم پرانی اور عام ہے بعض لوگ خاص لڑنے والے اونٹ پالتے ہیں کبھی کبھی شرطیں بھی لگتی ہیں۔ دین گڑھ قلعہ دین گڑھ دوسرے قلعوں کی نسبت چھوٹا معلوم ہوتا ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ اس کا بڑا حصہ ریت میں مل چکا ہے۔ اس قلعہ کے ساتھ ہی ایک کنواں بھی ہے۔ اس قلعہ کے بارے میں بھی لوگوں کو زیادہ معلومات حاصل نہیں، البتہ ایک نوجوان نے جو قلعے کے قریب ہی کھڑا تھا مجھے بتایا کہ یہاں ایک لکڑی پر خان خدا بخش کا نام لکھا ہوا ملا تھا، اس کا اتنا کہنا تھا کہ میرا ذہن قلعہ موج گڑھ کے ایک حاکم خان خدا بخش کی طرف چلا گیا میرے خیال میں دین گڑھ کا چھوٹا قلعہ واقعی خان خدا بخش نے بنوایا ہوگا، دین گڑھ اور موج گڑھ کا فاصلہ چند میل ہے اور میرے خیال میں جب خان خدا بخش موج گڑھ کے قلعہ کا حاکم ہوگا تو اس نے دین گڑھ کے قلعہ کی تعمیر کی ہوگی۔ یہاں شیخ، لاڑ، دین دار، کمہار اور چڑہوئے آباد ہیں۔ شیخ یہاں کی سب سے مال دار قوم ہے جو اونٹوں کا کاروبار کرتی ہے۔ دین دار لوئیاں، کمبل اور فلاسیاں بنتے ہیں۔ چڑھوئے زیادہ تر شیخوں کا مال ڈنگر چراتے ہیں۔ قلعہ مروٹ لوگوں کا خیال ہے کہ راجہ مہروٹ کے نام پر اس قلعہ کا نام مہروٹ رکھا گیا تھا اور بعد میں بگڑ کر مروٹ بن گیا۔ محققین نے بھی اپنی کتابوں میں یہی درج کیا ہے کہ اس قلعے کا بانی مہروٹ تھا۔ لیکن بعد میں یہ قلعہ مختلف ہاتھوں سے ہوتا ہوا عباسی خاندان کے قبضہ میں آگیا۔ اس کے نزدیک ہی دو مسجدیں بھی ہیں جو بعد میں تعمیر کی گئیں اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انہیں شہنشاہ اکبر نے بنوایا تھا۔ مروٹ میں رہنے والے لوگوں کا خیال ہے کہ یہ ملتان اور دلی کے قدیم راستہ پر واقع ہے اس لیے کسی زمانے میں یہ ایک اہم قلعہ رہا ہوگا۔ اس قلعہ کے ارد گرد بڑی بڑی رہائش گاہیں بھی تعمیر کی گئی ہیں۔ قلعہ مروٹ کے بارے میں بہت زیادہ تحقیق ہوچکی ہے اور بہت سی باتیں کتابوں میں درج ہوچکی ہیں، جن کا یہاں دہرانا مناسب نہیں۔ مروٹ کا قلعہ لق و دق صحرا میں واقع ہے لیکن قریب ہی مروٹ کا نیا شہر آباد ہوچکا ہے جو کہ پنجاب کے عام دیہاتوں جیسا ہے، یہاں آباد کاروں کے اپنے رقبے ہیں جہاں اچھی فصل ہوتی ہے۔

بہاول پور کی پہچان نیشنل پارک لال سوہانرا

لال سنہارا نیشنل پارک


بہاولپور سے 36 کلومیٹر دور ستاسی ہزار ایکٹر رقبے پر پھیلے اس پارک کا کچھ حصہ قدرتی جنگلات اور کچھ صحرائے چولستان پر مشتمل ہے، یہاں موجود جھیل اور اس میں ہزاروں بطخیں انتہائی خوبصورت منظر پیش کرتی ہیں۔ یہاں ایک چڑیا گھر بھی ہے جس میں کئی جانور موجود ہیں جبکہ نیشنل پارک میں کالے ہرن، چنکارہ، باز، دلدلی شکرے اور دیگر پرندوں کی اقسام پائی جاتی ہیں۔

ہزاروں سالہ چولستانی کلچر خطرے میں، حکومت بے نیاز

ہزاروں سالہ چولستانی کلچر خطرے میں، حکومت بے نیاز

رپورٹ ایم اقبال انجم سے
روہی میں واقع قلعہ دراوڑ تصویر: وکیپیڈیا
روہی میں واقع قلعہ دراوڑ
چولستان کے علاقے کی ثقافتی تاریخ ہزارو ں سال پرانی ہے ۔ اس تاریخ کے مطابق ایک وقت تھا جب چولستان کے علاقے میں ایک دریا بہتا تھا جسے دریائے ہاکڑا کہا جاتا تھا۔ اس دریا کے کنارے بسنے والے لوگ بہت خوشحال تھے، دریا کے کنارے بسے شہر تجارت کا مرکز تھے۔ ہاکڑا وادی کے لوگ ہاتھ سے کپڑے بناتے اور ان پر خوبصورت نقش و نگار بناتے جنہیں پوری دنیا میں پسند کیا جاتا۔ مٹی کے برتن بھی بنائے جاتے اور لوہے کا کام بھی بڑے نفاست سے کیا جاتا جسے دریا کے ذریعے سمندر تک اور پھر پوری دنیا میں پہنچایا جاتا ۔
اس طرح ہاکڑا وادی کے لوگ اپنے ہاتھ کے ذریعے بنائی گئی چیزوں کے ذریعے معاش کما کر گزر بسر کرتے ،خوشی کے موقع پر لوک ہاکڑا گیت گائے جاتے جنہیں سہرے کہا جاتا تھا۔ روہی کی دیو مالائی روایت میں جب اس زمین پر ایک عورت کے ساتھ نا انصافی ہوئی تو ہاکڑا دریا نے اپنا رخ تبدیل کر لیا۔
تاریخی طور پر جب دریا نے اپنا رخ تبدیل کیا اور زمینی تبدیلی آئی تو درخت سوکھنا شروع ہو گئے ،اور دریا کی زر خیز مٹی ریت میں تبدیل ہو گئی ۔ ہوا کے تیز جھونکوں نے ریت کو ٹیلوں میں تبدیل کر دیا ،اس طرح ہاکڑ کا پورا زرخیز علاقہ ٹیلوں کی شکل اختیار کر تے ہوئے صحرا میں تبدیل ہوگیا۔
ان تبدیلیوں کے وجہ سے بہت سے لوگ اس علاقے سے کوچ کر گئے مگر کچھ لوگ اپنی دھرتی کے ساتھ پیار کا ثبوت دیتے ہوئے اس علاقہ چولستان میں رہ گئے۔ ان لوگوں نے اپنی ثقافت کو بھوک اور پیاس میں بھی زندہ رکھا اور آج جو چولستانی ثقافت زندہ ہے ،انہی لوگوں کی مرہون منت ہے۔
چولستان کی اس ثقافت کو زندہ رکھنے میں یہاں کے فنکاروں، گلوکاروں اور شاعروں کا انتہائی اہم کردار رہا ہے۔ فنکاروں نے اپنی فن، گلوکاروں نے اپنے سریلے گیتوں اور شاعروں نے اپنی خوبصورت شاعری سے چولستان کی اس شناخت کو عوام کے دلوں میں قائم رکھا۔
خواجہ غلام فرید کا مزار تصویر: وکیپیڈیا
خواجہ غلام فرید کا مزار
برِ صغیر پاک و ہند کے معروف صوفی روحانی بزرگ خواجہ غلام فرید ایک عظیم سرائیکی شاعر بھی تھے جن کو چولستان کے علاقے سے، روہی کی صحرا نما سرزمیں سے والہانہ الفت تھی۔ خواجہ غلام فرید نے اپنی شاعری میں چولستان میں بسنے والے لوگوں کی محرومیوں کا ذکر کیا ہے اور چولستان کے صحرا نما سززمیں کے مختلف موسموں کو انتہائی خوبصورت الفاظ میں بیان کیا ہے۔
ان کی شاعری میں چولستان کی تپتی ریت سے لے کر برسات کے موسم کے نظارے تک اور روہی کی ٹھنڈی راتوں سے لے کر بیابانوں میں اگے پودوں تک، ہر طرح کا منظر ملتا ہے۔ حضرت خواجہ غلام فرید نے چولستان کو پہلی بار روہی کا نام اپنی شاعری میں دیا۔ آج اس چولستان کو روہی بھی کہا جاتا ہے اور یہ علاقہ جنوبی پنجاب کے تین اضلاع بہاولنگر، بہالپوراور رحیم یارخان تک پھیلا ہوا ہے۔
جب یہ صحرا سندھ میں داخل ہوتا ہے تو اسے تھر کہا جاتا ہے۔ علاقوں کی مناسبت سے ان کے نام تو تبدیل ہیں لیکن یہاں کے بسنے والے لوگوں کا کلچر ایک جیسا ہے۔ آج کل جو شاعر اپنی شاعری کے ذریعے چولستانی کلچرکو زندہ رکھے ہوئے ہیں ان میں جہانگیر مخلص امانﷲ ارشد اور شہزاد روہیلہ شامل ہیں۔ ان شعرا کی شاعری کو چولستان کے فوک گلوکاروں نے لوک گیتوں کا خوبصورت رنگ دے کر عوام میں مقبول کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
فقیرا بھگت کا ایک پوسٹر جس کے بیک گراؤنڈ میں قلعہ دراوڑ ہے تصویر: پاک وائسز
فقیرا بھگت کا ایک پوسٹر جس کے بیک گراؤنڈ میں قلعہ دراوڑ ہے
چولستان کے نامی گرامی فوک گلوکاروں میں فقیرا بھگت سرفہرست ہیں۔ فقیرا بھگت نے لوک گیتوں کے حوالے سے پوری دنیا میں نام کمایا اور اپنے فوک گیتوں کے ذریعے اپنے علاقے کی محرومیوں کو اور اپنے چولستانی کلچر کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچایا۔ اس طرح اپنے فن کے ذریعے انہوں نے چولستانی کلچر کو زندہ رکھنے میں حصہ ادا کیا۔
فقیرا بھگت نے 26 جنوری 1986 کو ریڈیو پاکستان میں اپنی فوک گلوکاری کا آغاز کیا اور بہت کم عرصے میں ایک مقبول فوک چولستانی گلوکار بن کر ابھرے۔ انہوں نے زیادہ تر خواجہ غلام فرید، سچل سرمست اور بابا بلھے شاہ کے کلام کو فوک گیتوں کی شکل دی۔ فقیرا بھگت نے لندن ،بھارت اور جرمنی میں بھی اپنے فن کا لوہا منوایا۔ لندن حکومت کی طرف سے انہیں فوک ایوارڈدیا گیا.
مگر پاکستان میں اس عظیم فنکار کے فن کی قدر نہ کی گئی اور 11 مئی 1999 کو فقیرا بھگت کالے یرقان میں مبتلا ہونے کے بعد دم توڑ گئے۔ ان کی زندگی کے آخری سال کسمپرسی کے عالم میں گزرے اور ناکافی وسائل نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنی بیماری کا علاج نہ کروا سکے۔ ان کی وفات کے 12 سال بعد حکومتِ پاکستان نے ان کے فن کا اعتراف کیا اور ان کو صدارتی تمغہ امتیاز سے نوازا گیا جو ان کی بیوی نے وصول کیا۔
نامور سرائیکی شاعر اور قوم پرست رہنما عاشق بزدار کے مطابق فقیرا بھگت کا کردار اس لئے بھی انتہائی اہم تھا کہ وہ چولستان کے آخری عظیم فوک گلوکار تھے۔ ان کے مطابق فقیرا بھگت کے بعد اب تک ان جیسا فوک گلوکار چولستان کی سرزمیں میں پیدا نہیں ہوا۔
چولستانی ثقافتی فوک موسیقی کی یہ عظیم آواز تو حکومتی نا قدری کا شکار ہو گئی مگر اس کے بعد بھی اقتدار نشینوں نے چولستانی ثقافت کو زندہ رکھنے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں لی۔ فقیرا بھگت کے بعد ان کے بیٹے موہن بھگت نے بھی فوک موسیقی کی راہ چنی اور آج انہیں فوک موسیقی کے بہترین گلوکاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔
 ہر سال 11 مئی کو چولستان میں فقیرا بھگت کی برسی منائی جاتی ہے جس میں ملک بھر سے دانش ور، شعرا حضرات اور فوک گلوکار جمع ہوتے ہیں. اس موقع پر چولستانی کلچر کے حوالے سے رات بھر دانش ور اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں اور گلو کار اور فنکار اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ رات بھر جاری رہنے والا یہ پروگرام علاقے کے مخیر خضرات کے تعاون سے چلتا ہے جبکہ حکومت چولستانی کلچر کے فروغ کے لئے اس طرح کی تقاریب منعقد کرانے میں بالکل کوئی دلچسپی نہیں لیتی۔

موہن بھگت فوک گیت گاتے ہوئے
اس حوالے سے فقیرا بھگت کے بیٹے موہن بھگت کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت سندھ کے کلچر کو زندہ رکھنے کے لئے فنکاروں کی معاشی معاونت کر تی ہے اور ہر تین ماہ بعد سندھ میں کلچر ل پروگرام کئے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ فوک گلوکاروں کے لئے سندھ حکومت ہر ماہ تیس ہزار روپے کا وظیفہ بھی دیتی ہے۔ دوسری طرف پنجاب میں وسائل تو موجود ہیں مگر یہ وسائل صرف لاہور کی حد تک محدود رہتے ہیں جبکہ چولستان کے کلچر کو زندہ رکھنے کی خاطر حکومت کوئی اقدامات نہیں کر رہی۔ ان کا کہنا ہے کہ اس لئے چولستانی کلچرآخری مراحل میں داخل ہو چکا ہے۔
موہن بھگت کا یہ بھی کہنا تھا کہ آرٹس کونسل میں بھی ہونے والے سرکاری ایونٹس میں بھی چولستانی فنکاروں کو نہیں بلوایا جاتا۔  اگر حکومت چولستانی فنکاروں گلوکاروں اور شعرا حضرات کو سپورٹ کرے تو انٹر نیشنل سطح پر چولستانی کلچرکو فروغ دیا جا سکتا ہے ۔

Tuesday, October 20, 2015

وہ ایک مشت خاک کہ صحرا کہیں جسے ! قلعہ ڈیراور چولستان کا گیٹ وے رپورٹ ایم اقبال انجم سے

وہ ایک مشت خاک کہ صحرا کہیں جسے ! قلعہ ڈیراور چولستان کا گیٹ وے

رپورٹ ایم اقبال انجم سے

قدیم تاریخ سے سرائیکی وسیب کی اپنی منفرد شناخت اور پہچان ہے۔ روہی تھل ، دامان او رکچھی کے علاقے اس کے دلفریب رنگ ہیں۔ فطرتی حسن، دریا اور صحرا اس کی اہمیت کو نمایاں کرتے ہیں۔ صوفیاء کی یہ دھرتی اپنے سینے پر آثار قدیمہ اور لوک ورثہ کے کئی نایاب اور الگ نشان رکھتی ہے۔ اس دھرتی کا مرکز ملتان اپنی قدامت کے حوالے سے پوری دنیا میں اپنا تعارف رکھتا ہے۔ روہی، چولستان اور تھل نہ صرف اپنا اپنا لوک ادب، ریت روایت اور موسمی تغیرات کے حوالے سے جانے پہچانے جاتے ہیں بلکہ یہاں پر بعض آثارِ قدیمہ سرائیکی دھرتی کی تاریخی اہمیت کو اجاگر بھی کرتے ہیں۔ ان آثار قدیمہ میں ایک ’’قلعہ ڈیراور ‘‘بھی ہے۔ بہت سے لوگ اسے قلعہ دراوڑ کے نام سے بھی پکارتے ہیں جو کہ غلط العام ہے،تاہم اس کا ایک تلفظ ڈیر اول بھی ہے۔ احمد پور شرقیہ سے نکلتی ایک ٹوٹی پھوٹی سنگل سڑک سیدھی قلعہ ڈیراور کو جاتی ہے۔ یہ قلعہ یزمان نامی شہر میں موجود ہے۔ یہیں سے چولستان کا آغاز ہوتا ہے، چولستان میں چالیس سے زائد تاریخی قلعے اور دیگر تاریخی مقامات ہیں جن میں قلعہ ڈیراور نقش اولین ہے۔ اسی پس منظر میں اس قلعے کو چولستان کا ’’ گیٹ وے‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ قلعہ ڈیراور اپنی ساخت اور فن تعمیر میں منفرد اور نرالی شان والی پرشکوہ عمارت ہے۔ فنکارانہ انداز میں گولائی میں بنائی گئی اس کی بلند وبالا دیواریں ہر ناظر کو متوجہ کرتی ہیں۔ اس کی شان وشوکت او رجاہ وجلال بتاتا ہے کہ کسی زمانے میں یہاں کوئی بڑی سج دھج اور ذوق والا بادشاہ حکومت کرتا ہوگا۔ اس قلعے کی بلندوبالا فصیلیں وقت کے کئی نشیب وفراز، جنگ وجدل کے دلخراش واقعات اور فتح وشکست کے مناظر کی چشم دیدگواہ ہیں۔ اس کے درودیوار میں کئی راز دفن ہیں۔ ہماراا لمیہ دیکھیے کہ ہم میں سے یہ کوئی نہیں جانتا کہ کس نے او رکب اس کا سنگ بنیاد رکھا؟ اس حوالے سے تاریخ محوخواب ہے۔ کہتے ہیں کہ صدیوں پہلے اسے کسی بھٹی ذات کے مہاراجے نے تعمیر کروایا تھا جبکہ ایک اور روایت کے مطابق یہ قلعہ جیسلمیر کے شہزادے’’دیوراول سنگھ بھاٹیہ‘‘ نے پانچ ہزار سال قبل وسطی ایشیاء اورہندوستان کے درمیان تجارتی اشیاء کی حفاظت کی غرض سے تعمیر کروایا تھا۔ یہ قلعہ زیادہ عرصہ تک راجستھان کے راجپوت حکمرانوں کے پاس رہا۔1735ء کے لگ بھگ بہاول پور کے عباسی حکمرانوں نے اسے اپنے قبضے میں لے کر دارالحکومت کا درجہ دیا۔ قلعے کی موجودہ پختہ عمارت اسی دور میں تعمیر کی گئی تھی۔ قلعے کی بیرونی دیواروں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہیں تعمیر کرنے کی غرض سے اینٹیں خصوصی طور پر اُچ شریف سے منگوائی گئی تھیں کیونکہ اُچ شریف اولیاء اللہ کی سرزمین سمجھی جاتی ہے۔ اسی لئے کام کرنے والے مزدوروں نے عقیدت کے طور پر اینٹوں کو ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ تک لاتے ہوئے قلعے تک پہنچایا تھا۔1744ء میں شکار پور کے نواب نے عباسیوں سے یہ قلعہ چھین لیا تھا ،لیکن1804ء میں عباسی نواب مبارک خان نے قلعہ ڈیراول پر دوبارہ اپنا تسلط جمالیا۔1804ء سے لیکر ایک عرصہ تک یہ قلعہ عباسی نوابوں کی ملکیت رہا(بحوالہ کافر کوٹ سے قلعہ ڈیراول تک از غلام عباس سیال)۔ عباسی خاندان کے نامور فرمانروا نواب صادق خان عباسی کے عہد تک اس قلعے کی برابر دیکھ بھال اور مرمت کی جاتی رہی، مگر بعد میں نکمے او ربے حس نوابوں نے اس پر کوئی توجہ نہ دی، جس سے اس کی حالت مخدوش ہوتی گئی۔قلعہ کا داخلی دروازہ لکڑی اور لوہے سے اپنی تشکیل پاتا ہے یہ دروازہ بلندی پر نصب کیا گیا ہے ،جہاں کھڑے ہوکر ہم گردونواح کا جائزہ لے سکتے ہیں او ریہیں سے نوابوں کے قبرستان کا مشاہدہ بھی کیا جاسکتا ہے۔یہ قبرستان نوابوں کی شان و شوکت اور خود نمائی کی دلیل ہے۔ کچھ ہی فاصلے پر ایک شاندار مسجد ایستادہ ہے، جو کسی حد تک لاہور کی بادشاہی مسجد اور دہلی کی موتی مسجد کی یاد دلاتی ہے۔ یہ مسجد نواب بہاول خان نے 1849ء میں تعمیر کروائی تھی، اس کی کشادگی اور فن تعمیر سے نکھرتاحسن نوابوں کی اسلام سے وابستگی کا پتہ بھی دیتا ہے۔ قلعے کے گردونواح میں کچے مکانوں کے کھنڈرات کسی ایسی داستان کی یاد دلاتے ہیں جس میں’’ظالم دیو‘‘ نے آبادی کو ہڑپ کرلیا ہو اور چہار سوسناٹوں کا بسیرا ہو۔ قلعے کی بلند وبالا فصیلوں کے اند رجگہ جگہ گڑھے، ٹوٹی پھوٹی بکھری اینٹیں او رپراسرار اور دل دہلا دینے والے مناظر میں نواب محل، پھانسی گھاٹ، جیل خانہ، سرنگیں، خستہ سیڑھیاں، کھنڈرات کا روپ دھارچکی ہیں۔ نواب محل میں بلندی پر تعمیر کی گئی عمارت میں جو حصہ ہے وہاں کی کھڑکیوں اور بالکونیوں (Bolconies) سے صحرا کا منظر دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ شاہی حصہ، شاہی قلعہ لاہور شاہی محل کے مشابہ ہے۔ اس کی چھت کا اندرونی نظر نقش اور پچی کاری سے مزین ہے۔ قلعے کے کھلے دالان میں دوخستہ توپیں اور چند نامعلوم لوگوں کی قبریں بھی موجود ہیں۔ سارے کا سارا قلعہ اتنی بے توجہی کا شکار ہے کہ نہ تو یہاں پر کوئی محافظ، نہ پانی کا انتظام اور نہ ہی قلعے سے متعلق کوئی ایسی تحریر ہے جس سے سیاح اس سے متعارف ہوسکیں۔ داخلی دروازے کی چابی نواب کے کسی ملازم کے پاس رہتی ہے، جو نذرانہ لے کر اسے کھولتا ہے۔ دروازے میں داخل ہوتے ہی آپ کا استقبال چمگاڈریں کریں گی، چمگادڑوں کا یہ حال ہے کہ اس دروازے کی دیواروں او رچھت پر گویا چمگادڑوں کا لیپ کردیا گیا ہو، قلعے کے اندر کمروں میں بھی یہی حالت ہے او راتنی ناگوار بدبو ہوتی ہے کہ الامان۔ قلعے کا اندرونی منظر شہنشاہوں اور نوابوں کے جاہ وجلال کی خبردیتا ہے۔چاندنی سے لطف اندوز ہونے کی الگ جگہیں تو چولستان کی وسعتوں سے دل لبھانے کے الگ مقام، نوکروں چاکروں اور قیدیوں کے لئے الگ عمارتیں اور آرام دہ خواب گاہیں الگ مگر ہنستے بستے اور پر رونق اس قلعے کی موجودہ حالت زار ہر آنے جانے والوں کو اشکبار کردیتی ہے لمحہ موجود میں یہ قلعہ فقط چمگادڑوں کا رین بسرابن کر رہ گیا ہے، بعض کمروں میں اُگنے والی جھاڑیاں تناور درخت بن کر کمروں کی چھتوں کو بھی کراس کرگئی ہیں۔بین کرتی قلعے کی مجموعی شخصیت اپنے لاوارث ہونے کی دہائی رہی ہے۔ اس کا مالک نواب صلاح الدین عباسی، جس کو شاید اب اپنے خاندانی وقار کا احساس بھی نہیں رہا،اگر اس قلعے کو رونق بخش دے، تو ہمیشہ کے ایک کے لئے اس کا نام تاریخ میں امر ہوجائے گا۔ سنا ہے یو اے ای کی حکومت نے نواب صاحب سے قلعے کو پندرہ برس کے لئے لیز پر لینے کی درخواست کی ہے مگر ڈرا سہما مصلحت پسند یہ نواب خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے۔ اگر یہ قلعہ یو اے ای کے پاس کچھ عرصے کے لئے چلا جائے تو اس کی حالت سنورسکتی ہے۔ نہیں تو آنے والی نسلیں اس کا ذکر حرف کتاب اور لوک گیتوں میں سنیں گی۔۔۔! (انٹرنیٹ سے ماخوذ) ٭…٭…٭

.’’چولستان ‘‘اور’’ رَوہی‘‘ رپورٹ ایم اقبال انجم سے

’’چولستان ‘‘اور’’ رَوہی‘‘

ایم اقبال انجم سے

چولستان ایک وسیع وعریض صحرا ہے جس کی سرحدیں بھارتی صحرائی صوبے راجستھان سے پاکستانی صوبے سندھ تک پھیلی ہوئی ہیں۔ سندھ میں اسے’’ تھر‘‘ اور پنجاب کے ملتان اور ڈیرہ غازی خان کے ڈویژنوں میں’’ تھل‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ بہاولپور ڈویژن میںیہ ’’چولستان‘‘ اور ’’رَوہی‘‘ کہلاتا ہے۔ چولستان شمال کی طرف سے زیریںخطے سے گھرا ہواہے، جسے مقامی طور پر ہاکڑہ کہتے ہیں، جہاں200فٹ تک بلند ٹیلوں کی ایک قطار چلی آتی ہے۔ ان ٹیلوں میں اُگنے والے خاص طرز کی سَر، سروٹ، تیلے، سرکانے، ملھے اور ایسی ہی جھاڑیاں ملتی ہیں۔ ٹیلوں کے بننے اورمٹنے میں ہوا اَور آندھیوںکاخاصاعمل دخل ہے۔اس علاقے میں طرح طرح کے ٹیلے بنتے رہتے ہیں، لیکن سب سے اہم ٹیلے وہ ہیںجنہیں ’’برخان‘‘کہتے ہیں۔ برخان ایک ایساتنہا ٹیلہ ہوتاہے جس کے خدوخال تقریباً پہلی تاریخوں کے چاند جیسے ہوتے ہیں۔ چوڑے سے گول کنارے نیچے کی سمت جاتے ہیں۔ ٹیلے کی سمت کا نشان چلتی ہوا اَور تیز آندھی کی رو سے ملتا ہے اور سست روی اُس کی خاص نشانی ہے۔ چوٹی کا تاریک رُخ انتہائی خوبصورت اور ہموارہوتا ہے۔ جہاں ریت کے ذرے اُوپر چڑھتے رہتے ہیں۔ ٹیلے کی ہلالی سمت کی جانب گہری بل کھاتی ٹِیلی سی ہوتی ہے جسے ’’تلکن مکھڑا‘‘کہتے ہیں۔ جو تقریباً 35 ڈگری اُفقی زاویہ رکھتی ہے۔ چوٹی سے ریت کے ذرے ہوا سے اُڑ اُڑ کر زیریں حصّے کی جانب پھسل پھسل آتے ہیںاور ڈھلوان کی طرف اکٹھے ہوتے ہیں۔ جب تیز ہوا چل رہی ہو تو ریت کے ذروں کا ایک بادل چوٹی پر بنتا دکھائی دیتا ہے۔ یہ ہلالی ٹیلے عام طور پر ایک ہموار سطح پر ہوتے اور اسے گھیرتے نظرآتے ہیں۔ ریت اس وقت بھی اکٹھا ہونا شروع ہو جاتی ہے جب اس کے رستے میں کوئی چھوٹا سا پہاڑی پتھر یا کسی جھاڑی کی جڑ یا شاخ آجائے ۔ ایک مرتبہ جب خاصی ریت جُڑجائے تویہ نیچے کی جانب سرکنا شروع ہو جاتی ہے۔ عام طورپریہ ٹیلے ایک ایسی قطار یا زنجیر بناتے جاتے ہیںجو چلتی ہوا کی ڈھلوان کی طرف ہوتی ہے۔ زیر زمین 80فٹ کی گہرائی میں کڑوا پانی ملتا ہے۔ 4000ق م کے قرب وجوار میں چولستان کی وہ تہذیب جڑیں پکڑ رہی تھی جسے عام طور پر دریائے ہاکڑہ کی نسبت سے تہذیب وادیٔ ہاکڑہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ 1200ق م تک دریا رواں رہا۔ پھر 600ق م کے قریب اس کی روانی بے قاعدہ ہوئی اور اس کا وجود کرۂ ارض سے مٹ گیا۔ یہاں پھلنے پھولنے والی ہاکڑہ تہذیب انسانی تاریخ میں ایک طویل باب رکھنے والی تہذیب ہے۔ثقافتی ترقی کے حوالے سے اس تہذیب کا موازنہ میسو پوٹیمیائی، مصری اور بابلونی تہذیبوں سے کیا جا سکتا ہے۔ متنوع سیاسی و جغرافیائی عوامل اس عظیم تہذیب کے خاتمے کا باعث بنے۔ حقیقتاً یہی دراوڑی آبادی ہے جو ہاکڑہ تہذیب کے آثار میں اب تک باقی بچی ہوئی ہے۔ اسے وقتاً فوقتاً دلاور، ڈیرہ جٹ، ڈیرہ راول جیسے مختلف ناموں سے پکارا گیا ہے ۔لیکن اس کا اصل دراوڑی نام ’’دراوڑ‘‘ معدوم زمانوں سے زندہ چلا آرہا ہے۔ خشک ہو جانے والے دریائے ہاکڑہ کی گزرگاہ کے قریب عین چولستان کے وسط میں قلعہ دراوڑکے کھنڈرات ابھی تک موجود ہیں۔ دریائے ہاکڑہ یاگھگھرکے مٹ جانے کاعمل قبل ازتاریخ کے زمانوں میں وقوع پذیر ہوا۔ اس لیے پسِ پردہ جغرافیائی تبدیلیوں کوجاننے کے لیے شاید ہی کوئی نشانی بچا ہو۔ اس کے نتیجے میں بہاولپورریجن کادوتہائی حصہ بے آب وگیاہ ہوگیا۔ اپنے گم شدہ ماضی کی وجہ سے اس عظیم دریاکوآج بھی جغرافیہ دان ’’گم شدہ دریا‘‘کے نام سے یادرکھے ہوئے ہیں۔ رِگ وید کی حمدوں میں اسے ’’مقدس سرسوتی‘‘کے نام سے شناخت کیاگیاہے جو پہاڑوں سے سمندرتک جانے والا سب سے پوِتر دریا ہے۔ مہا بھارت میں اسے ’’دو اَوتار دریاؤں میں سے ایک‘‘ قرار دیا گیا ہے جو دھرماکھیسڑا (مقدس زمین)کی جنوبی سرحدتشکیل دیتا تھا۔پہلی آریائی آبادی اسی دریاکے کنارے آباد ہوئی تھی۔ چولستانی لوگوں کو مقامی طورپر روہیلے کہا جاتا ہے۔ ان کے بارے میں قیاس کیا جاتا ہے کہ وہ مستقل طو رپر آریاؤں، جٹوں، بلوچیوں اور ایرانیوں کے حملوںکی زد میں رہے تھے لیکن سماجی ڈھانچہ اب تک تبدیل نہیں ہوا ہے۔ دریائے ہاکڑہ کا صحرا میں بدل جانا بھی ایک ممکنہ وجہ ہے جس نے اس جگہ کوناقابل رہائش بنایا۔ مقامی روایات کے مطابق لفظ چولستان دراصل لفظ ’’چولی‘‘سے نکلا ہے۔ چولستانی خواتین گھاگھرے پر کَسی ہوئی مختصر چولی پہنتی ہیں جس کی شباہت ٹیلوں سے ملتی ہے۔ ’’جغرافیہ سندھ‘‘ میں ’’وچولو‘‘ (درمیانی) کو چولستان کا ماخذ بیان کیا جاتا ہے۔ چولستانی بزرگوں کا کہنا ہے کہ اس صحرا میں زور دار آندھیاں چلتی ہیںجس کی وجہ سے ریت کے ٹیلے حرکت میں رہتے ہیں۔ ان صحرائی ہواؤں کی وجہ سے وہ ایک سے دوسری جگہ منتقل ہوتے رہتے ہیں۔ 1945ء کی سلوی کلچر کانفرنس میں لیفٹیننٹ کرنل ویسٹ لینڈ نے سال 1870تا 1935ء کے درمیان ہونے والے ایک سروے پر مشتمل نقشہ پیش کیا گیا تھا۔ جس میں دکھایا گیا تھا کہ ریت کے ٹیلوں نے شمال مشرقی رُخ پر 65سال میں آدھ میل سفر کیا تھا۔1؎ لفظ ’’چولن‘‘ٹیلوں کی اسی حرکت کی کیفیت کی غمازی کرتا ہے۔ لہٰذاخیال کیا جاتا ہے کہ چولستان کا لفظ ’’چولن‘‘ سے مشتق ہے۔ایک خیال یہ بھی پیش کیا گیا ہے کہ لفظ’’ چھول‘‘سرائیکی میں لہر کے معنوں میں آتا ہے۔ صحرا کا منظر اس کی منظر کشی کرتا نظر آتا ہے۔ اس لیے ’’چھول‘‘سے ’’چھولیاں‘‘ کا لفظ صوتی یکسانی کی وجہ سے چولستان کے قریب ہے۔ لہٰذااس کا ماخذ یہ بھی ہوسکتاہے۔ تاریخ کی کتب میں چولستان کی مختلف وجوہاتِ تسمیہ بیان ہوئی ہیں جن کے مطابق لفظ ’’چولستان‘‘ترکی لفظ’’چول‘‘سے مشتق ہے جس کامطلب ہے صحرا۔جبکہ کچھ مؤرخ یقین رکھتے ہیں چولستان عراقی (کرد)لفظ’’چیلستان‘‘سے بگڑ کر بناہے جس کامعنی ہے بے آب و گیاہ علاقہ۔2؎ ’’روہی‘‘کے نام سے معروف چولستان کو ’’روہی‘‘ اسی تلفظ میں ادا کیا جاتا ہے جو اب بھی تبت کے کچھ علاقوں میں مروج ہے۔ یعنی ’’روہ‘‘ جس کا مطلب ہے’ ’پہاڑی‘‘ اور جس سے ’’روہیلا‘‘ کا نام اخذ کیا گیا ہے۔ اسی طرح سرائیکی میں، جو چولستان کے باشندوں کی ماں بولی ہے، ’’روہ‘‘ پہاڑ کو کہتے ہیں۔چونکہ چولستان پہاڑ نماٹیلوں سے بھرا پڑا ہے اس لیے اسے روہی کانام دیا گیا ہے۔ (کتاب ’’تاریخ ِضلع بہاولنگر-معدوم سے معلوم تک‘‘ ناشر: بُک ہوم،لاہور) ٭…٭…٭

..چنن پیر: صحرائے چولستان میں امن و آشتی کا نمونہ بہاول پور سے رپورٹ ایم اقبال انجم سے

چنن پیر: صحرائے چولستان میں امن و آشتی کا نمونہ

چنن پیر: صحرائے چولستان میں امن و آشتی کا نمونہ
بہاول پور سے تقریباً 60میل دور صحرائے چولستان میں قلعہ دراوڑ اور دین گڑھ کے درمیان پنجاب کی رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑی تحصیل یزمان سے ذرا آگے چنن پیر کا مزار ہے۔ تقریباً 600سال قدیم اس مزار پر ہندو اور مسلمان یکساں ایمان سے آتے ہیں۔ حضرت عماد الدین المعروف چنن پیر کا عرس پاکستان میں اپنی نوعیت کا واحد عرس ہے جو مسلسل سات ہفتے یعنی فروری کی آخری جمعرات بمطابق ہندی مہینے چیت سے شروع ہو کر اپریل کی اوائل جمعرات تک جاری رہتا ہے۔
شتربانوں کے قافلے اپنی منزلوں سے چلتے ہیں اور رات کے ملگجے اندھیروں یا صبح کی خاکستری روشنیوں میں ہوا میں ڈاچیوں کی گھنٹیاں عقیدت مندوں کی آمد کا اعلان کرتی ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ روہی میں ہر طرف بہار ہی بہار ہے۔
مسلسل سات جمعرات تک جاری رہنے والا یہ میلہ پانچویں جمعرات کو اپنے عروج پر پہنچتا ہے،اس دن ضلع بہاول پور میں بھی عام تعطیل ہوتی ہے۔ ہر جمعرات کو ہزاروں میل سے عقیدت مند یہاں حاضری دیتے ہیں۔ شتربانوں کے قافلے اپنی منزلوں سے چلتے ہیں اور رات کے ملگجے اندھیروں یا صبح کی خاکستری روشنیوں میں ہوا میں ڈاچیوں کی گھنٹیاں عقیدت مندوں کی آمد کا اعلان کرتی ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ روہی میں ہر طرف بہار ہی بہار ہے۔بغیر سبزے کی اس بہار میں ، موسم بہار کے خو ش ر نگ پھولوں کی طرح رنگ برنگے لباسوں میں ملبوس دیہاتی عورتیں اور مرد جگہ جگہ پڑاؤ ڈالے نظر آتے ہیں اور سیلانیوں کی بعض ٹولیاں باقاعدہ ڈھول تاشے کی تھاپ پر ناچتی گاتی چنن پیر کے مزار تک آ پہنچتی ہیں۔
یوں تو چنن پیر سے کئی روایات ، قصے کہانیاں منسوب ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ جب معروف صوفی بزرگ حضرت جلال الدین سرخ پوش بخاری کا اس علاقے سے گزر ہوا تو یہاں ایک بے اولاد بادشاہ سادھارن کی حکومت تھی۔ سادھارن کوآپ کی کرامات کا علم ہوا تو آپ سے اولاد کے لیے دعا کی درخواست کی۔ درویش نے دعا مانگی تو بادشاہ کے ہاں شہزادہ پیدا ہوا جو اتنا خوبصورت تھا کہ لوگوں نے اس کو چاند سے تشبیہ دی اور چنن پکارنے لگے۔ چنن جب بولنے کی عمر کو آیا تو کلمہ پڑھنا شروع کیا ور رعایا میں مشہور ہوا کہ بادشاہ کا بیٹا غیر مذہب کا نام لیوا ہے تو سادھارن نے اپنے بیٹے کے قتل کا حکم دے دیا ادھر ملکہ نے اپنے بیٹے کی جان بخشی کی درخواست کی جو اس شرط پر قبول کی گئی کہ اب چنن محل کی بجائے صحرا میں رہے گا اور روتی بلکتی ملکہ نے چنن کو صحرا میں ایک ٹیلے پر چھوڑ دیا۔ لوگوں نے دیکھا کہ ایک ہرنی چنن کو دودھ پلا رہی ہے۔ یہ خبر ملکہ تک پہنچی تو وہ محل چھوڑ کر صحرا میں آگئی ۔بادشاہ نے ایک مرتبہ پھر چنن کے قتل کا حکم صادر کردیا لیکن روایت کے مطابق جب شاہی محافظ ٹیلے پر پہنچے تو چنن غائب ہو چکے تھے۔ اہم بات یہ ہے کہ چنن پیر کا مزار ریت کے ایک بہت بڑے ٹیلے پر واقع ہے اور جب بھی اس پر عمارت قائم کرنے کی کوشش کی گئی تو ہمیشہ ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ مزار کے احاطے میں ایک درخت ہے جس کے بارے میں مشہور ہے کہ چنن کی والدہ یہاں مدفون ہیں۔ زائرین حاجت بیان کرنے کے بعد اس درخت سے کپڑے کی کتر باندھ کر چلے جاتے ہیں۔ اگر مناجات پوری ہوجائیں تو کتر کھل جاتی ہے اور پھر زائرین عرس پر نیاز چڑھانے آتے ہیں۔ روہی والوں کے نزدیک چنن پیر کی حیثیت خوشی کے دیوتا کی سی ہے وہ روحانیت کے اس مرکز کو مسرت و شادمانی کا سرچشمہ سمجھتے ہیں، یہاں ان کی ہر منت پوری ہوتی ہے۔ غموں کا مداوا اور خوشیوں کا سامان فراہم ہوتا ہے۔ بے اولادوں کو اولاد ، بن بیاہوں کو دلہنیں نصیب ہوتی ہیں۔ حضرت چنن پیر کے ہندو اور مسلمان یکساں معتقد ہیں۔ ہندو مجاور مزارکے ہاتھ سے تبرکات لیتے ہوئے کوئی پرہیز نہیں کرتے ۔ لوگ خصوصاً مڑیچہ ہندو یہاں زیادہ حاضری دیتے ہیں اور دیگر غیر مسلم اقوام بھی حاضری دیتے ہیں۔ جہاں حضرت چنن پیر چولستان روہی کے اس علاقہ کی شناخت ہیں اور بہت بلند نام ہیں وہاں یہ مزار امن و آشتی کا نمونہ بھی ہے۔
8

6

5

1

2

3

4

Monday, October 19, 2015

ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال کے گائنی وارڈ میں تعینات سٹاف نرس اور فی میل میڈیکل ٹیکنیشن میں زبردست جھگڑا۔ تل

ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال کے گائنی وارڈ میں تعینات سٹاف نرس اور فی میل میڈیکل ٹیکنیشن میں زبردست جھگڑا۔ تلخ کلامی ، گالم گلوچ کے بعد بات ہاتھاپائی تک جاپہنچی۔ ایک دوسری کو غلیظ گالیاں بھی دی گئیں۔ ڈپٹی نرسنگ سپرنٹنڈنٹ نے مزید کشیدگی سے بچنے کیلئے دونوں خواتین اہلکاروں کو گائنی وارڈ سے تبدیل کردیا ۔شہریوں کا دونوں خواتین کو ضلع جھنگ سے باہر تبدیل کرنے کا مطالبہ 

جھنگ (رپورت صاحبزادہ زاکر رحمان ):ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال جھنگ کے گائنی وارڈ میں طویل عرصہ سے تعینات سٹاف نرس اور فی میل میڈیکل ٹیکنیشن میں زبردست جھگڑا ہو گیا جبکہ مریضوں کی موجودگی میں تلخ کلامی ، گالم گلوچ کے بعد بات ہاتھاپائی تک جاپہنچی نیز اس دوران ایک دوسری کو غلیظ گالیاں بھی دی گئیں تاہم ڈپٹی نرسنگ سپرنٹنڈنٹ نے مزید کشیدگی سے بچنے کیلئے دونوں خواتین اہلکاروں کو گائنی وارڈ سے تبدیل کردیا لیکن شہریوں نے دونوں خواتین کو ضلع جھنگ سے باہر تبدیل کرنے کا مطالبہ کیاہے۔ تفصیلات کے مطابق معلوم ہواہے کہ ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹرہسپتال جھنگ کے گائنی وارڈ میں طویل عرصہ سے تعینات سٹاف نرس روبینہ اورفی میل میڈیکل ٹیکنیشن رخسانہ ناہید جو بطور چارج نرس فرائض سرانجام دے رہی ہے میں ڈیوٹی کے اختتام پر اوور لینے کے معاملہ پر تلخ کلامی ہو گئی ۔ اس دوران دونوں خواتین اہلکاروں نے مریضوں کی موجودگی میں ایک دوسری کے ساتھ سخت بد تمیزی اور گالم گلوچ کی جس کے بعد بات ہاتھاپائی ، لڑائی جھگڑے اور مار پیٹ تک جاپہنچی جس سے ہسپتال کے گائنی وارڈ کا ماحول انتہائی کشیدہ ہوگیا ۔ واقع کی اطلاع ملنے پر ڈپٹی نرسنگ سپرنٹنڈنٹ میڈم گلزار نے دونوں خواتین اہلکاروں کو اپنے دفتر بلایا جہاں ایک بار پھر دونوں اہلکاروں نے اپنی افسر کے سامنے ایک دوسرے کو نہ صرف غلیظ اور ننگی گالیاں دیں بلکہ ایک بار پھر گتھم گتھا بھی ہو گئیں جس پرڈی این ایس نے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹرممتاز سیال کو واقعہ سے آگاہ کیاجن کی ہدایت پر دونوں اہلکاروں کو گائنی وارڈ سے تبدیل کردیاگیا تاکہ ماحول کو مزید کشیدہ ہونے سے بچایاجاسکے۔ گائنی وارڈ کی ڈاکٹرز ودیگر سٹاف نے اس واقعہ پر تشویش کااظہار کیا جبکہ مریضوں نے دونوں اہلکاروں کی گائنی وارڈ سے تبدیلی پراطمینان کااظہار کیا ۔ وارڈ میں موجود بعض خواتین مریضوں اور ان کے لواحقین نے مذکورہ دونوں خواتین اہلکاروں پر مبینہ طور پر کرپشن ، بد عنوانی ، بے ضابطگی اور بد تمیزی کا بھی الزام عائد کیا۔ انہوں نے محکمہ صحت کے اعلیٰ حکام سے دونوں خواتین اہلکاروں کو ضلع جھنگ سے باہر تبدیل کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔
################################
سوئی ناردرن گیس جھنگ کے کرپٹ افسران کی ملی بھگت سے تاریخ کی سب سے بڑی گیس چوری پکڑی گئی ۔بااثر سیاسی و کاروباری شخصیات کی ملکیتی گلیکسی ٹیکسٹائل ملز جھنگ میں طویل عرصہ سے میٹر ٹمپر ، حساس پرزے تبدیل ،زیادہ پریشر کو کم ظاہر کرکے وسیع پیمانے پر گیس چوری کی جارہی تھی۔ چوری کی گیس سے ٹیکسٹائل فیکٹری چلانے کے علاوہ بجلی بھی بنائی جارہی تھی۔محکمہ نے گیس چوری کا ابتدائی تخمینہ 20کروڑ روپے سے زائد ظاہر کردیا ۔ اہم ترین سیاسی ، کاروباری ، انتظامی شخصیات معاملہ ٹھپ کروانے کیلئے سرگرم عمل ہو گئیں۔ متعلقہ کرپٹ افسران سے کوئی باز پرس نہیں کی گئی ۔ شہر میں گیس کی بلاجواز لوڈ شیڈنگ مگر بڑے کمرشل اداروں ، اہم ہوٹلوں کو فل پریشر کے ساتھ نان سٹاپ گیس کی سپلائی جاری ۔ملز کا فیسکو کا کروڑوں روپے کاڈیفالٹر ہونے کابھی انکشاف۔ شہریوں کا وزیراعظم سے صورتحال کا فوری نوٹس لینے کامطالبہ 
جھنگ ( ):سوئی ناردرن گیس جھنگ کے کرپٹ افسران کی ملی بھگت سے تاریخ کی سب سے بڑی گیس چوری پکڑی گئی جبکہ بااثر سیاسی و کاروباری شخصیات کی ملکیتی گلیکسی ٹیکسٹائل ملز جھنگ میں طویل عرصہ سے میٹر ٹمپر ، حساس پرزے تبدیل ،زیادہ پریشر کو کم ظاہر کرکے وسیع پیمانے پر گیس چوری اور چوری کی گیس سے ٹیکسٹائل فیکٹری چلانے کے علاوہ بجلی بھی بنائی جارہی تھی نیزمحکمہ نے گیس چوری کا ابتدائی تخمینہ 20کروڑ روپے سے زائد ظاہر کیا ہے تاہم اہم ترین سیاسی ، کاروباری ، انتظامی شخصیات معاملہ ٹھپ کروانے کیلئے سرگرم عمل ہو گئی ہیں لیکن گیس چوری کروانے والے سوئی ناردرن گیس پائپ لائنزلمیٹڈ جھنگ کے متعلقہ کرپٹ افسران سے کوئی باز پرس نہیں کی گئی ۔علاوہ ازیں اب بھی شہر میں گیس کی بلاجواز لوڈ شیڈنگ مگر بڑے کمرشل اداروں ، اہم ہوٹلوں کو فل پریشر کے ساتھ نان سٹاپ گیس کی سپلائی جاری ہے جس پر شہریوں نے وزیراعظم سے صورتحال کا فوری نوٹس لینے کامطالبہ کیاہے۔ تفصیلات کے مطابق معلوم ہواہے کہ گزشتہ دور حکومت نے وفاقی وزیر خارجہ کے اہم ترین منصب پر فائز رہنے والی ایک اہم خاتون سیاسی شخصیت ،اس کے خاوند اور سسر کی ملکیتی گلیکسی ٹیکسٹائل ملز ٹوبہ روڈ جھنگ صدر پر سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ جھنگ کی جانب سے سیریل نمبر RC00334132کا حامل Qu Ft 08 Digit RC56 M175 گیس میٹرلگایاگیاتھاجس کا الیکٹرانک و الیم کوریکٹڈ نمبر 0806306634اور ای وی سی /ای ایم سی ELGASتھا کے بارے میں سوئی ناردرن گیس فیصل آباد کے حکام کو اطلاع موصول ہوئی کہ اس میٹر میں ٹمپرنگ کرتے ہوئے اس کے حساس پرزے تبدیل ، گیس کی مقدار کو ماپنے میں استعمال ہونے والے اصل پرزہ جات کی جگہ غیرمعیاری پرزہ جات کی تنصیب، گیس کے زیادہ پریشر کو انتہائی کم کرنے کیلئے اس میں تبدیلی کے ذریعے کروڑوں روپے کی گیس چوری کی جارہی ہے اور مذکورہ چوری شدہ گیس سے نہ صرف گلیکسی ٹیکسٹائل ملز کو چلایاجارہاہے بلکہ اس سے غیر قانونی طورپر بجلی بھی تیار کی جارہی ہے۔ مذکورہ اطلاع ملنے پر ایس این جی پی ایل کی اعلیٰ سطحی ٹیم نے سپیشل جوڈیشل مجسٹریٹ کی سربراہی میں مل پر اچانک چھاپہ مارا تو پتہ چلا کہ میٹرکا کاؤنٹ 39132500ہے جبکہ فیکٹری میں 0529600600 کیوبک فٹ گیس استعمال ہو چکی تھی۔ اس طرح فیکٹری کے بااثر سیاسی و کاروباری مالکان 20کروڑ روپے سے زائد مالیت کی گیس چوری کر چکے تھے۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ محکمہ کی جانب سے میٹر اتار کر لیبارٹری چیکنگ کیلئے بھجوائے جانے پر شدید دباؤ کے باوجود گیس چوری کاالزام ثابت ہو گیاہے لیکن بااثرمالکان کے خلاف ابھی تک کوئی کاروائی نہ کی جارہی ہے ۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اگرچہ سوئی ناردرن گیس جھنگ کے انچارج کے توسط سے متعلقہ تھانہ اور آر پی او فیصل آباد کو درخواست دی گئی ہے لیکن عملی طورپر اس کی پیروی نہ کی جارہی ہے جس سے اندازہ ہوتاہے کہ طویل عرصہ سے مذکورہ کروڑوں روپے مالیت کی سب سے بڑی گیس چوری کی واردات سوئی ناردرن گیس جھنگ کے حکام کی مبینہ ملی بھگت سے کی جارہی تھی مگر ان کے خلاف بھی کوئی کاروائی عمل میں نہ لائی گئی ہے۔ مصدقہ ذرائع نے بتایاہے کہ گلیکسی ٹیکسٹائل ملز جھنگ میں کی جانیوالی تاریخ ساز گیس چوری کے واقعہ کی تفتیش کا دائرہ کار خفیہ طور پر بڑھادیاگیا ہے اور مختلف تحقیقی ادارے رازداری کے ساتھ اس کیس میں سرگرم ہو گئے ہیں مگر اوپرسے کاروائی کی اجازت کا انتظار کیاجا رہا ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل تذکرہ ہے کہ سوئی گیس جھنگ کے حکام کی جانب سے شہر کے گھریلو صارفین کیلئے تو دن میں کئی کئی گھنٹے گیس کی بلاجواز لوڈ شیڈنگ کاسلسلہ جاری ہے مگر دوسری جانب تھانہ صدر چوک کے قریب یوسف شاہ روڈ ، سیشن چوک اوردیگر مقامات پر واقع شہر کے بڑے بڑے ہوٹلوں اور کمرشل اداروں کو 24گھنٹے فل پریشر کے ساتھ گیس کی سپلائی کاسلسلہ جاری ہے جس کے عوض مبینہ طور پر ماہانہ بھاری بھتہ وصول کرنے کا بھی شبہ ہے۔ جھنگ کے کاروباری ، سیاسی ، سماجی ، عوامی حلقوں نے وزیر اعظم محمدنوازشریف اور دیگر حکام سے صورتحال کافوری نوٹس لینے اور کروڑوں روپے کی گیس چوری میں ملوث افراد کو نشان عبرت بنانے کا مطالبہ کیاہے۔####

ھنگ کی تاریخ کی 20کروڑ روپے سے زائد مالیت کی سب سے بڑی گیس چوری پکڑے جانے کے باوجود ذمہ داران کے خلاف کوئی کاروائی نہ ہو سکی۔ اہ

جھنگ ( رپورٹ صاحبزادہ زاکرحسین
):سوئی ناردرن گیس جھنگ کے کرپٹ افسران کی ملی بھگت سے تاریخ کی سب سے بڑی گیس چوری پکڑی گئی جبکہ بااثر سیاسی و کاروباری شخصیات کی ملکیتی گلیکسی ٹیکسٹائل ملز جھنگ میں طویل عرصہ سے میٹر ٹمپر ، حساس پرزے تبدیل ،زیادہ پریشر کو کم ظاہر کرکے وسیع پیمانے پر گیس چوری اور چوری کی گیس سے ٹیکسٹائل فیکٹری چلانے کے علاوہ بجلی بھی بنائی جارہی تھی نیزمحکمہ نے گیس چوری کا ابتدائی تخمینہ 20کروڑ روپے سے زائد ظاہر کیا ہے تاہم اہم ترین سیاسی ، کاروباری ، انتظامی شخصیات معاملہ ٹھپ کروانے کیلئے سرگرم عمل ہو گئی ہیں لیکن گیس چوری کروانے والے سوئی ناردرن گیس پائپ لائنزلمیٹڈ جھنگ کے متعلقہ کرپٹ افسران سے کوئی باز پرس نہیں کی گئی ۔علاوہ ازیں اب بھی شہر میں گیس کی بلاجواز لوڈ شیڈنگ مگر بڑے کمرشل اداروں ، اہم ہوٹلوں کو فل پریشر کے ساتھ نان سٹاپ گیس کی سپلائی جاری ہے جس پر شہریوں نے وزیراعظم سے صورتحال کا فوری نوٹس لینے کامطالبہ کیاہے۔ تفصیلات کے مطابق معلوم ہواہے کہ گزشتہ دور حکومت نے وفاقی وزیر خارجہ کے اہم ترین منصب پر فائز رہنے والی ایک اہم خاتون سیاسی شخصیت ،اس کے خاوند اور سسر کی ملکیتی گلیکسی ٹیکسٹائل ملز ٹوبہ روڈ جھنگ صدر پر سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ جھنگ کی جانب سے سیریل نمبر RC00334132کا حامل Qu Ft 08 Digit RC56 M175 گیس میٹرلگایاگیاتھاجس کا الیکٹرانک و الیم کوریکٹڈ نمبر 0806306634اور ای وی سی /ای ایم سی ELGASتھا کے بارے میں سوئی ناردرن گیس فیصل آباد کے حکام کو اطلاع موصول ہوئی کہ اس میٹر میں ٹمپرنگ کرتے ہوئے اس کے حساس پرزے تبدیل ، گیس کی مقدار کو ماپنے میں استعمال ہونے والے اصل پرزہ جات کی جگہ غیرمعیاری پرزہ جات کی تنصیب، گیس کے زیادہ پریشر کو انتہائی کم کرنے کیلئے اس میں تبدیلی کے ذریعے کروڑوں روپے کی گیس چوری کی جارہی ہے اور مذکورہ چوری شدہ گیس سے نہ صرف گلیکسی ٹیکسٹائل ملز کو چلایاجارہاہے بلکہ اس سے غیر قانونی طورپر بجلی بھی تیار کی جارہی ہے۔ مذکورہ اطلاع ملنے پر ایس این جی پی ایل کی اعلیٰ سطحی ٹیم نے سپیشل جوڈیشل مجسٹریٹ کی سربراہی میں مل پر اچانک چھاپہ مارا تو پتہ چلا کہ میٹرکا کاؤنٹ 39132500ہے جبکہ فیکٹری میں 0529600600 کیوبک فٹ گیس استعمال ہو چکی تھی۔ اس طرح فیکٹری کے بااثر سیاسی و کاروباری مالکان 20کروڑ روپے سے زائد مالیت کی گیس چوری کر چکے تھے۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ محکمہ کی جانب سے میٹر اتار کر لیبارٹری چیکنگ کیلئے بھجوائے جانے پر شدید دباؤ کے باوجود گیس چوری کاالزام ثابت ہو گیاہے لیکن بااثرمالکان کے خلاف ابھی تک کوئی کاروائی نہ کی جارہی ہے ۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اگرچہ سوئی ناردرن گیس جھنگ کے انچارج کے توسط سے متعلقہ تھانہ اور آر پی او فیصل آباد کو درخواست دی گئی ہے لیکن عملی طورپر اس کی پیروی نہ کی جارہی ہے جس سے اندازہ ہوتاہے کہ طویل عرصہ سے مذکورہ کروڑوں روپے مالیت کی سب سے بڑی گیس چوری کی واردات سوئی ناردرن گیس جھنگ کے حکام کی مبینہ ملی بھگت سے کی جارہی تھی مگر ان کے خلاف بھی کوئی کاروائی عمل میں نہ لائی گئی ہے۔ مصدقہ ذرائع نے بتایاہے کہ گلیکسی ٹیکسٹائل ملز جھنگ میں کی جانیوالی تاریخ ساز گیس چوری کے واقعہ کی تفتیش کا دائرہ کار خفیہ طور پر بڑھادیاگیا ہے اور مختلف تحقیقی ادارے رازداری کے ساتھ اس کیس میں سرگرم ہو گئے ہیں مگر اوپرسے کاروائی کی اجازت کا انتظار کیاجا رہا ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل تذکرہ ہے کہ سوئی گیس جھنگ کے حکام کی جانب سے شہر کے گھریلو صارفین کیلئے تو دن میں کئی کئی گھنٹے گیس کی بلاجواز لوڈ شیڈنگ کاسلسلہ جاری ہے مگر دوسری جانب تھانہ صدر چوک کے قریب یوسف شاہ روڈ ، سیشن چوک اوردیگر مقامات پر واقع شہر کے بڑے بڑے ہوٹلوں اور کمرشل اداروں کو 24گھنٹے فل پریشر کے ساتھ گیس کی سپلائی کاسلسلہ جاری ہے جس کے عوض مبینہ طور پر ماہانہ بھاری بھتہ وصول کرنے کا بھی شبہ ہے۔ جھنگ کے کاروباری ، سیاسی ، سماجی ، عوامی حلقوں نے وزیر اعظم محمدنوازشریف اور دیگر حکام سے صورتحال کافوری نوٹس لینے اور کروڑوں روپے کی گیس چوری میں ملوث افراد کو نشان عبرت بنانے کا مطالبہ کیاہے۔####