Tuesday, November 24, 2015

بہاول پور کا چولستان قلعہ ڈراور

وہ ایک مشت خاک کہ صحرا کہیں جسے ! قلعہ ڈیراور چولستان کا گیٹ وے

ایم اقبال انجم سے

قدیم تاریخ سے سرائیکی وسیب کی اپنی منفرد شناخت اور پہچان ہے۔ روہی تھل ، دامان او رکچھی کے علاقے اس کے دلفریب رنگ ہیں۔ فطرتی حسن، دریا اور صحرا اس کی اہمیت کو نمایاں کرتے ہیں۔ صوفیاء کی یہ دھرتی اپنے سینے پر آثار قدیمہ اور لوک ورثہ کے کئی نایاب اور الگ نشان رکھتی ہے۔ اس دھرتی کا مرکز ملتان اپنی قدامت کے حوالے سے پوری دنیا میں اپنا تعارف رکھتا ہے۔ روہی، چولستان اور تھل نہ صرف اپنا اپنا لوک ادب، ریت روایت اور موسمی تغیرات کے حوالے سے جانے پہچانے جاتے ہیں بلکہ یہاں پر بعض آثارِ قدیمہ سرائیکی دھرتی کی تاریخی اہمیت کو اجاگر بھی کرتے ہیں۔ ان آثار قدیمہ میں ایک ’’قلعہ ڈیراور ‘‘بھی ہے۔ بہت سے لوگ اسے قلعہ دراوڑ کے نام سے بھی پکارتے ہیں جو کہ غلط العام ہے،تاہم اس کا ایک تلفظ ڈیر اول بھی ہے۔ احمد پور شرقیہ سے نکلتی ایک ٹوٹی پھوٹی سنگل سڑک سیدھی قلعہ ڈیراور کو جاتی ہے۔ یہ قلعہ یزمان نامی شہر میں موجود ہے۔ یہیں سے چولستان کا آغاز ہوتا ہے، چولستان میں چالیس سے زائد تاریخی قلعے اور دیگر تاریخی مقامات ہیں جن میں قلعہ ڈیراور نقش اولین ہے۔ اسی پس منظر میں اس قلعے کو چولستان کا ’’ گیٹ وے‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ قلعہ ڈیراور اپنی ساخت اور فن تعمیر میں منفرد اور نرالی شان والی پرشکوہ عمارت ہے۔ فنکارانہ انداز میں گولائی میں بنائی گئی اس کی بلند وبالا دیواریں ہر ناظر کو متوجہ کرتی ہیں۔ اس کی شان وشوکت او رجاہ وجلال بتاتا ہے کہ کسی زمانے میں یہاں کوئی بڑی سج دھج اور ذوق والا بادشاہ حکومت کرتا ہوگا۔ اس قلعے کی بلندوبالا فصیلیں وقت کے کئی نشیب وفراز، جنگ وجدل کے دلخراش واقعات اور فتح وشکست کے مناظر کی چشم دیدگواہ ہیں۔ اس کے درودیوار میں کئی راز دفن ہیں۔ ہماراا لمیہ دیکھیے کہ ہم میں سے یہ کوئی نہیں جانتا کہ کس نے او رکب اس کا سنگ بنیاد رکھا؟ اس حوالے سے تاریخ محوخواب ہے۔ کہتے ہیں کہ صدیوں پہلے اسے کسی بھٹی ذات کے مہاراجے نے تعمیر کروایا تھا جبکہ ایک اور روایت کے مطابق یہ قلعہ جیسلمیر کے شہزادے’’دیوراول سنگھ بھاٹیہ‘‘ نے پانچ ہزار سال قبل وسطی ایشیاء اورہندوستان کے درمیان تجارتی اشیاء کی حفاظت کی غرض سے تعمیر کروایا تھا۔ یہ قلعہ زیادہ عرصہ تک راجستھان کے راجپوت حکمرانوں کے پاس رہا۔1735ء کے لگ بھگ بہاول پور کے عباسی حکمرانوں نے اسے اپنے قبضے میں لے کر دارالحکومت کا درجہ دیا۔ قلعے کی موجودہ پختہ عمارت اسی دور میں تعمیر کی گئی تھی۔ قلعے کی بیرونی دیواروں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہیں تعمیر کرنے کی غرض سے اینٹیں خصوصی طور پر اُچ شریف سے منگوائی گئی تھیں کیونکہ اُچ شریف اولیاء اللہ کی سرزمین سمجھی جاتی ہے۔ اسی لئے کام کرنے والے مزدوروں نے عقیدت کے طور پر اینٹوں کو ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ تک لاتے ہوئے قلعے تک پہنچایا تھا۔1744ء میں شکار پور کے نواب نے عباسیوں سے یہ قلعہ چھین لیا تھا ،لیکن1804ء میں عباسی نواب مبارک خان نے قلعہ ڈیراول پر دوبارہ اپنا تسلط جمالیا۔1804ء سے لیکر ایک عرصہ تک یہ قلعہ عباسی نوابوں کی ملکیت رہا(بحوالہ کافر کوٹ سے قلعہ ڈیراول تک از غلام عباس سیال)۔ عباسی خاندان کے نامور فرمانروا نواب صادق خان عباسی کے عہد تک اس قلعے کی برابر دیکھ بھال اور مرمت کی جاتی رہی، مگر بعد میں نکمے او ربے حس نوابوں نے اس پر کوئی توجہ نہ دی، جس سے اس کی حالت مخدوش ہوتی گئی۔قلعہ کا داخلی دروازہ لکڑی اور لوہے سے اپنی تشکیل پاتا ہے یہ دروازہ بلندی پر نصب کیا گیا ہے ،جہاں کھڑے ہوکر ہم گردونواح کا جائزہ لے سکتے ہیں او ریہیں سے نوابوں کے قبرستان کا مشاہدہ بھی کیا جاسکتا ہے۔یہ قبرستان نوابوں کی شان و شوکت اور خود نمائی کی دلیل ہے۔ کچھ ہی فاصلے پر ایک شاندار مسجد ایستادہ ہے، جو کسی حد تک لاہور کی بادشاہی مسجد اور دہلی کی موتی مسجد کی یاد دلاتی ہے۔ یہ مسجد نواب بہاول خان نے 1849ء میں تعمیر کروائی تھی، اس کی کشادگی اور فن تعمیر سے نکھرتاحسن نوابوں کی اسلام سے وابستگی کا پتہ بھی دیتا ہے۔ قلعے کے گردونواح میں کچے مکانوں کے کھنڈرات کسی ایسی داستان کی یاد دلاتے ہیں جس میں’’ظالم دیو‘‘ نے آبادی کو ہڑپ کرلیا ہو اور چہار سوسناٹوں کا بسیرا ہو۔ قلعے کی بلند وبالا فصیلوں کے اند رجگہ جگہ گڑھے، ٹوٹی پھوٹی بکھری اینٹیں او رپراسرار اور دل دہلا دینے والے مناظر میں نواب محل، پھانسی گھاٹ، جیل خانہ، سرنگیں، خستہ سیڑھیاں، کھنڈرات کا روپ دھارچکی ہیں۔ نواب محل میں بلندی پر تعمیر کی گئی عمارت میں جو حصہ ہے وہاں کی کھڑکیوں اور بالکونیوں (Bolconies) سے صحرا کا منظر دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ شاہی حصہ، شاہی قلعہ لاہور شاہی محل کے مشابہ ہے۔ اس کی چھت کا اندرونی نظر نقش اور پچی کاری سے مزین ہے۔ قلعے کے کھلے دالان میں دوخستہ توپیں اور چند نامعلوم لوگوں کی قبریں بھی موجود ہیں۔ سارے کا سارا قلعہ اتنی بے توجہی کا شکار ہے کہ نہ تو یہاں پر کوئی محافظ، نہ پانی کا انتظام اور نہ ہی قلعے سے متعلق کوئی ایسی تحریر ہے جس سے سیاح اس سے متعارف ہوسکیں۔ داخلی دروازے کی چابی نواب کے کسی ملازم کے پاس رہتی ہے، جو نذرانہ لے کر اسے کھولتا ہے۔ دروازے میں داخل ہوتے ہی آپ کا استقبال چمگاڈریں کریں گی، چمگادڑوں کا یہ حال ہے کہ اس دروازے کی دیواروں او رچھت پر گویا چمگادڑوں کا لیپ کردیا گیا ہو، قلعے کے اندر کمروں میں بھی یہی حالت ہے او راتنی ناگوار بدبو ہوتی ہے کہ الامان۔ قلعے کا اندرونی منظر شہنشاہوں اور نوابوں کے جاہ وجلال کی خبردیتا ہے۔چاندنی سے لطف اندوز ہونے کی الگ جگہیں تو چولستان کی وسعتوں سے دل لبھانے کے الگ مقام، نوکروں چاکروں اور قیدیوں کے لئے الگ عمارتیں اور آرام دہ خواب گاہیں الگ مگر ہنستے بستے اور پر رونق اس قلعے کی موجودہ حالت زار ہر آنے جانے والوں کو اشکبار کردیتی ہے لمحہ موجود میں یہ قلعہ فقط چمگادڑوں کا رین بسرابن کر رہ گیا ہے، بعض کمروں میں اُگنے والی جھاڑیاں تناور درخت بن کر کمروں کی چھتوں کو بھی کراس کرگئی ہیں۔بین کرتی قلعے کی مجموعی شخصیت اپنے لاوارث ہونے کی دہائی رہی ہے۔ اس کا مالک نواب صلاح الدین عباسی، جس کو شاید اب اپنے خاندانی وقار کا احساس بھی نہیں رہا،اگر اس قلعے کو رونق بخش دے، تو ہمیشہ کے ایک کے لئے اس کا نام تاریخ میں امر ہوجائے گا۔ سنا ہے یو اے ای کی حکومت نے نواب صاحب سے قلعے کو پندرہ برس کے لئے لیز پر لینے کی درخواست کی ہے مگر ڈرا سہما مصلحت پسند یہ نواب خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے۔ اگر یہ قلعہ یو اے ای کے پاس کچھ عرصے کے لئے چلا جائے تو اس کی حالت سنورسکتی ہے۔ نہیں تو آنے والی نسلیں اس کا ذکر حرف کتاب اور لوک گیتوں 

Wednesday, November 18, 2015

کیٹی بندر کے بارے میں سیدہ تحسین فاطمہ کا تہلکہ خیز انکشاف

میلوں تک پھیلے ویرانے، سوکھی ہوئی جھاڑیاں اور آنکھوں میں حیرت اور تجسس لیے چند بچّے، جنھیں دیکھ کر یہ یقین کرنا مشکل لگتا ہے کہ انڈس ڈیلٹا کا یہ علاقہ کبھی زرخیز تھا۔۔
دنیا کی آب و ہوا تیزی کے ساتھ تبدیل ہو رہی ہے۔ پاکستان بھی اس ماحولیاتی تبدیلی سے دوچار ہے۔ خاص طور پر انڈس ڈیلٹا میں واقع ہونے والی تبدیلیاں اس کے اردگرد آباد سینکڑوں لوگوں کی زندگی کے لیے خطرہ بن رہی ہیں۔
کیٹی بندر پر سمندر دریائے سندھ کو نگل رہا ہے۔نمکین پانی میٹھے پانی کو دہکیلتا ہوا اوپر چڑھا چلا آ رہا ہے ۔جو صرف علاقے کا نقشہ ہی تبدیل نہیں کر رہا بلکہ ساحل کے اردگرد آباد ہزاروں مچھیروں کے خاندانوں کے لیے شدید خطرہ بن چکا ہے۔
کیٹی بندر پر واقع ایک گاؤں اللہ ڈنو پٹیل میں جھونپڑیوں میں رہنے والے چند خاندان یہاں کی  بربادی اور بدحالی کی جیتی جاگتی مثال ہیں
نوجوان زاہدہ اپنے شوہر اور دو بچوں کے ساتھ ایک ایسے گھر میں رہتی ہے جو زندگی کی تمام تر بنیادی سہولتوں سے محروم ہے، وہ اپنے بچوں کے مستقبل سے کچھ زیادہ پر امید نہیں ۔ زاہدہ کے جھونپڑے کے قریب ہی اس کے کچھ رشتے دار بھی مقیم ہیں۔ مرد روزی کی تلاش میں گھر سے باہر گئے ہوئے تھے۔

 یہاں کی آبادی کی آمدنی کا اسی فیصدخوراک پر خرچ ہو جاتا ہے۔ اس صورتحال میں سب سے زیادہ متاثر عورت ہے

یہاں کی آبادی کی آمدنی کا اسی فیصدخوراک پر خرچ ہو جاتا ہے۔ اس صورتحال میں سب سے زیادہ متاثر عورت ہے
سمندر نے ان کے گاؤں کو دھکیل کرجتنی دور پھینکا ان کا ذریعہ معاش مچھلیاں بھی ان سے اتنی ہی دور ہو گئیں ۔ زمیں کی زرخیزی ختم ہو چکی ہے۔ یہاں اب کچھ نہیں اگتا۔ بستر پر بیٹھی امیر زادی نے سالوں سے سبزی نہیں کھائی۔ اردگرد کوئی پھل دار یا سایہ دار درخت نظر نہیں آتا۔ دانہ چگتی مرغیوں پر نظر ڈالتے ہوئے میں نے پوچھا کہ مرغیاں فروخت کرنے کے لیے پالتے ہیں یا اپنے کھانے کے لیے تو معلوم ہوا کہ یہ مرغیاں مہمانوں کے لیے پالی جاتی ہیں۔کبھی کبھی گھر والے بھی کھا لیتے ہیں۔ میں نے گائے اور بکرے کے گوشت کی بابت دریافت کیا تو مجھے بتایا گیا کہ زمین کی زرخیزی ختم ہونے کے سبب جانوروں کے لیے چارہ تک نہیں اگایا جا سکتا۔ کھانے کے لیے صرف مچھلی ہے۔ نہ سبزی نہ گائے بکرے کا گوشت اور نہ ہی دودھ میسر ہے۔
یہاں کی آبادی کی آمدنی کا اسی فیصدخوراک پر خرچ ہو جاتا ہے۔ اس صورتحال میں سب سے زیادہ متاثر عورت ہے۔ جو سندھ کی روایات کے مطابق خوراک کا بہترین حصہ شوہر اور بیٹوں کو دینے کی عادی ہے۔ کچھ بچ جائے تو وہ کھا لیتی ہے۔
عالمی بینک کے ایک جائزے کے مطابق ساحلی علاقوں میں رہنے والے مچھیروں کے خاندان کی خوراک دالوں، سبزی، دودھ اور گوشت سے محروم ہے۔اکثرچاول، پیاز اور مرچ ہی پر گزارا کیا جاتا ہے۔دودھ ، گوشت اور سبزیاں میسر نہ آنے کے سبب عورتیں اور بچے غذائی قلت اور خون کی کمی کا شکار ہو رہے ہیں۔

 دریائے سند ھ کے کنارے صدیوں سے آبادمچھلی پکڑنے کے پیشے سے وابستہ ان خاندانوں کو غذا کی قلت نے بڑے پیمانے پر نقل مکانی پر مجبور کر دی

دریائے سند ھ کے کنارے صدیوں سے آبادمچھلی پکڑنے کے پیشے سے وابستہ ان خاندانوں کو غذا کی قلت نے بڑے پیمانے پر نقل مکانی پر مجبور کر دی

انیس سو نوے کی دہائی تک ضلع ٹھٹھہ میں بہترین دودھ دینے والی بھینسیں اور گائے وافر تعداد میں موجود تھیں ۔اس کے علاوہ بھیڑ،بکری، اونٹ، گھوڑے اور خچر بھی دستیاب تھے۔ مگر میٹھے پانی کی عدم دستیابی اور کھیتی باڑی کے لیے موزوں زمینیں نہ ہونے کی سبب جانوروں کی خوراک اور چارے کی قلت ہونے لگی۔۔جس کی وجہ سے رفتہ رفتہ انڈس ڈیلٹا کے قریب ان جانوروں کی زندگی ختم ہونے لگی۔

کیٹی بندر پر واقع ایک گاؤں اللہ ڈنو پٹیل میں جھونپڑیوں میں رہنے والے چند خاندانوں سے یہاں کی بربادی اور بدحالی کی جیتی جاگتی مثال ہے۔
کیٹی بندر پر واقع ایک گاؤں اللہ ڈنو پٹیل میں جھونپڑیوں میں رہنے والے چند خاندانوں سے یہاں کی بربادی اور بدحالی کی جیتی جاگتی مثال ہے۔
دریائے سند ھ کے کنارے صدیوں سے آبادمچھلی پکڑنے کے پیشے سے وابستہ ان خاندانوں کو غذا کی قلت نے بڑے پیمانے پر نقل مکانی پر مجبور کر دیا، مگر اب بھی بہت سے ایسے ہیں جو مشکلات جھیل کر بھی اس زمین سے اپنی محبت کے سبب وہیں آباد ہیں۔
فشر فوک فورم کے محمد علی شاہ کا کہنا ہے کہ انڈس ڈیلٹا کی تباہی کا ایک بڑا سبب مینگروز درختوں کی کٹائی ہے۔ محمد علی شاہ نے حکومت کو توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ مینگروز لگانے سے زیادہ ان کی حفاظت ضروری ہے۔ یاد رہے کہ حکومت دو بار یہاں مینگروز لگانے کا عالمی رکارڈ قائم کرچکی ہے۔

Tuesday, November 17, 2015

. خیرپورٹامیوالی حوا کی بیٹی اغوا ہوئی درندے چار ماہ تک اس کی عزت لوٹتے رہے ویڈیو فلم بنا کر نیٹ پر چڑھا دی گئ

متاثرہ پروین مائی کا نمبر۔ 0306.3134536 .03012626586
SHOخیرپورٹامیوالی مہرممتاز حسین۔0300 8770790 
بہاول پور(رپورٹ ایم اقبال انجم سے)
خیرپورٹامیوالی میں ظلم وجبرتشدد اور انسانی حقوق کی پامالی کی ہولناک داستان سامنے آگئی حوا کی بیٹی اغوا ہوئی درندے چار ماہ تک اس کی عزت لوٹتے رہے ویڈیو فلم بنا کر نیٹ پر چڑھا دی گئی زنجیروں سے باندھ کر قید رکھاگیا بھاگنے پر ایک ٹانگ بھی توڑ دی گئی عدالت ایڈیشنل سیشن جج کے حکم سے مقدمہ درج ہوا مگرقانون کے رکھوالے بک گئے ملزمان آزاد ہوگئے متاثرہ انصاف کیلئے دربدر میڈیا آفس پہنچ گئی اور اپنے اوپر گزرنے والے تمام واقعات سے دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ پردہ اٹھا دیا ۔ 
خیرپورٹامیوالی میں بھی حوا کی بیٹی پر ظلم وتشدد بربریت اور انسانی حقوق کی پامالی کی ہولناک داستان سامنے آگئی چار ماہ قبل 10مسلح آفرادنے اپنے 5اور نامعلوم ساتھیوں کے ہمراہ محلہ وڈیرہ سے ایک 27سالہ شادی شدہ خاتون پروین مائی زوجہ ریاض احمد کو زبردستی اغوا کر کے لے گئے اور لڈن وہاڑی جاکر اپنے 3اور ساتھیوں کرم خاں۔فریدخاں۔اورعباس ۔کے حوالے کردیا جو اسے ایک کمرے میں بند کر کے مسلسل پونے چار ماہ تک باری باری اجتماعی زیادتی کا نشانہ بناتے رہے برہنہ کرکے ویڈیو فلمیں بھی بنائی گئیں تشدد بھی کرتے رہے زنجیروں سے باندھ کر قید کر کے رکھا گیا متاثرہ نے ایک دن بھاگنے کی کوشش کی تو اس کی ایک ٹانگ بھی ان درندوں نے توڑ ڈالی چار ماہ بعد متاثرہ خاتون کسی طرح ٹوٹی ہوئی ٹانگ کے ساتھ اس گھر سے فرار ہوکر کسی اور شخص کی مدد سے اپنے گھرخیرپورٹامیوالی پہنچی اور میڈیکل بنواکر ایڈیشنل سیشن جج کو اپنے اوپر گزرنے والے ظلم وستم کی داستان سنائی پولیس نے ایڈیشنل سیشن جج کے حکم پر ملزمان کے خلاف 297/15مقدمہ درج کرلیا مگر تھانہ انچارج انسپکٹر مہر ممتاز ملزمان سے مل گیا اور 10لاکھ روپئے رشوت لے کر لیگی ایم پی اے کی ایماء پر ملزمان کو اسی وقت بے گناہ قرار دے کر 4روز کے اندر مقدمہ ہی خارج کردیا اور الٹا متاثرہ خاتوں کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں اور ان کے بھائیوں سمیت رشتہ داروں کے خلاف جھوٹا مقدمہ بھی درج کردیا متاثرہ آج اپنے تمام دستاویزی ثبوتوں کے ہمراہ میڈیا آفس پہنچی اور روتے ہوئے تمام داستان سنائی اور بتایا کہ ملزمان پولیس مجھے قتل کرنا چاہتی ہے مجھے میڈیا کے ذریعہ ہی اعلیٰ حکام سے انصاف دلایا جائے وگرنہ ڈی پی او آفس بہاول پور کے سامنے جاکر میں خودسوزی کرلونگی

Wednesday, November 11, 2015

جھنگ کے ممتاز صحافی صدیق صادق کی اہلیہ وفات پاگئیں

پریس ریلیز
ممتا ز سینئر صحافی میاں صدیق صادق کی اہلیہ مختصر علالت کے بعد انتقال پا گئیں۔ نماز جنازہ میں ہر مکتبہ فکر کے سینکڑوں افراد کی شرکت ۔مرحومہ کی روح کو ایصال ثواب کیلئے رسم قل و قرآن خوانی آج ہو گی
جھنگ ( ):ممتا ز سینئر صحافی، قومی انگریزی روزنامہ کے سٹاف رپورٹر ، سابق صدر جھنگ یونین آف جرنلسٹس و پریس کلب جھنگ میاں صدیق صادق کی اہلیہ مختصر علالت کے بعد انتقال پا گئیں۔ مرحومہ کی نماز جنازہ بدھ کی صبح لولہے شاہ قبرستان جھنگ صدر کی جناز گاہ میں ادا کی گئی جس میں انتظامی افسران ، ارکان اسمبلی ،الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا سے تعلق رکھنے والے صحافیوں ، آفیشل میڈیا کے نمائندگان ، محکمہ تعلقات عامہ کے حکام ، وکلاء ، علماء ، دانشوروں ، صنعتکاروں ، تاجروں ، اساتذہ اور سول سوسائٹی کے ہر مکتبہ فکر کے سینکڑوں افراد نے شرکت کی ۔بعد ازاں مرحومہ و مغفورہ کو اشکبار آنکھوں کے ساتھ ان کے آبائی قبرستان لولہے شاہ جھنگ میں سپرد خاک کردیا گیا۔ مرحومہ کی روح کو ایصال ثواب کیلئے رسم قل و قرآن خوانی آج جمعرات کی صبح 8بجے جامع مسجد تقویٰ محلہ سلطان والا جھنگ صدر میں ادا کی جائے گی۔ دریں اثناء ڈپٹی ڈائریکٹر محکمہ تعلقات عامہ جھنگ سرفراز اللہ خان ، چیئرمین پریس کلب لیاقت علی انجم،وائس چیئرمین صاحبزادہ ذاکر رحمن، سیکرٹری خرم سعید شیخ ، صدر جھنگ یونین آف جرنلسٹس منظور عابد کھرل ،جنرل سیکرٹری ریاض نول ،ممتاز پارلیمنٹیرین سیدہ عابدہ حسین ، ممبر قومی اسمبلی شیخ محمد اکرم ، ممبران صوبائی اسمبلی راشدہ یعقوب شیخ ، خالد محمودسرگانہ ، چوہدری خالد غنی ، نواب خرم خان سیال، جھنگ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر محمد عمر رامے ، ضلعی انجمن تاجران جھنگ کے صدر حاجی محمد علی ، جنرل سیکرٹری حاجی دلدار علی ، ریجنل یونین آف جرنلسٹس کے سینئر نائب صدر کلیم اللہ لودھی ، محلہ سلطان والا سے جنرل کونسلر کیلئے لیگی امیدوار ملک محمد فاروق اور دیگر اہم سیاسی ، دینی ، مذہبی شخصیات نے میاں صدیق صادق کی اہلیہ محترمہ کی ناگہانی وفات حسرت آیات پر گہرے دکھ ، دلی رنج و غم اور افسوس کااظہار کیاہے۔ انہوں نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ مرحومہ و مغفورہ کو جنت الفردوس کے حسین گوشوں میں جگہ سمیت ان کے پسماندگان کو یہ صدمہ جانکاہ ہمت و استقامت سے برداشت کرنے اور صبر جمیل کی توفیق عطافرمائے۔####

Thursday, November 5, 2015

پولیس اور ریونیو نے خیرپورٹامیوالی کی بستی گڈن میں بستی گرادی عورتوں پر تشدد کیا

بہاول پور(رپورٹ ایم اقبال انجم سے) خیرپورٹامیوالی کی نواحی بستی غریب آباد داودپورہ گڈن میں پولیس گردی لاقانونیت ظلم وتشدد بربریت کی اہم
 داستان سامنے آگئی لیگی ایم پی اے کی ایماء پر اسسٹنٹ کمشنر رینیو عملہ اور پولیس کی بھاری نفری نے 30سالوں سے آباد غریبوں کی بستی پر حملہ کردیا عورتوں بچوں بوڑہوں پرتشدد کی انتہاء کردی کچے مکانات گرادئیے قرآن پاک بھی شہید کردیئے گئے ظلم بڑہتا گیا خواتین چیختی چلاتی رہیں شیرجوان ڈنڈے برساتے رہے کوئی بھی مدد کو نہ آیا ایک صحافی کو بھی کوریج کرنے پر پولیس نے دھلائی کردی کیمرہ چھین لیا جماعت اسلامی کے نائب امیر موقع پر پہنچے اور متاثرین کے ساتھ احتجاج کیا ۔

تفصیل کے مطابق کے مطابق خیرپورٹامیوالی کی نواحی بستی غریب آباد داودپورہ گڈن کی سرکاری اراضی پر 30سال قبل وڈیروں جاگیرداروں کے ظلم وستم سے تنگ آئے غریب لوگ آباد ہوگئے اور 100کے قریب کچے مکان بنا کر اپنی زندگی کے دن کاٹ رہے تھے کہ 2004میں یسینٰ ترک اور اس کا بھائی محکمہ مال سے سازباز کر کے جعلسازی سے 30ایکڑ اراضی الاٹ کر الی اور آج لیگی ایم پی اے کی آشیرباد سے پولیس محکمہ مال کے اعلیٰ افسران اسسٹنٹ کمشنر میڈم سعدیہ مہر اور ڈی ایس پی سعید احمد چوہدری کی سربراہی میں بھاری نفری لے کر داودپورہ پہنچا اور مکینوں پر اچانک حملہ کردیا پولیس اور ریونیو عملہ نے عورتوں بچوں بوڑہوں پر تشددکیا کچے مکانات گرادیئے اندر پڑے قرآن پاک بھی شیہد ہوگئے خواتین خدا اور رسول کے واسطے دیتی رہیں مگر شیرجوان چیختی چلاتی عورتوں پر ڈنڈے برساتے رہے ااور گھریلوسامان بھی توڑ دالا اس دوران ایک اخبار کے رپورٹر محمدفاروق کمبوہ کو واقعہ کے فوٹو بنانے پر بھی پولیس نے دھلائی کردی اور کیمرہ چھین لیا جب پولیس اور ریونیو عملہ چلا گیا تو جماعت اسلامی کے مقامی راہنماء قاری سعیداحمد سندھڑ موقع پر پہنچے اور متاثرین کے ساتھ احتجاج کیا اور اعلیٰ حکام سے فی الفور نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔