Tuesday, October 20, 2015

.’’چولستان ‘‘اور’’ رَوہی‘‘ رپورٹ ایم اقبال انجم سے

’’چولستان ‘‘اور’’ رَوہی‘‘

ایم اقبال انجم سے

چولستان ایک وسیع وعریض صحرا ہے جس کی سرحدیں بھارتی صحرائی صوبے راجستھان سے پاکستانی صوبے سندھ تک پھیلی ہوئی ہیں۔ سندھ میں اسے’’ تھر‘‘ اور پنجاب کے ملتان اور ڈیرہ غازی خان کے ڈویژنوں میں’’ تھل‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ بہاولپور ڈویژن میںیہ ’’چولستان‘‘ اور ’’رَوہی‘‘ کہلاتا ہے۔ چولستان شمال کی طرف سے زیریںخطے سے گھرا ہواہے، جسے مقامی طور پر ہاکڑہ کہتے ہیں، جہاں200فٹ تک بلند ٹیلوں کی ایک قطار چلی آتی ہے۔ ان ٹیلوں میں اُگنے والے خاص طرز کی سَر، سروٹ، تیلے، سرکانے، ملھے اور ایسی ہی جھاڑیاں ملتی ہیں۔ ٹیلوں کے بننے اورمٹنے میں ہوا اَور آندھیوںکاخاصاعمل دخل ہے۔اس علاقے میں طرح طرح کے ٹیلے بنتے رہتے ہیں، لیکن سب سے اہم ٹیلے وہ ہیںجنہیں ’’برخان‘‘کہتے ہیں۔ برخان ایک ایساتنہا ٹیلہ ہوتاہے جس کے خدوخال تقریباً پہلی تاریخوں کے چاند جیسے ہوتے ہیں۔ چوڑے سے گول کنارے نیچے کی سمت جاتے ہیں۔ ٹیلے کی سمت کا نشان چلتی ہوا اَور تیز آندھی کی رو سے ملتا ہے اور سست روی اُس کی خاص نشانی ہے۔ چوٹی کا تاریک رُخ انتہائی خوبصورت اور ہموارہوتا ہے۔ جہاں ریت کے ذرے اُوپر چڑھتے رہتے ہیں۔ ٹیلے کی ہلالی سمت کی جانب گہری بل کھاتی ٹِیلی سی ہوتی ہے جسے ’’تلکن مکھڑا‘‘کہتے ہیں۔ جو تقریباً 35 ڈگری اُفقی زاویہ رکھتی ہے۔ چوٹی سے ریت کے ذرے ہوا سے اُڑ اُڑ کر زیریں حصّے کی جانب پھسل پھسل آتے ہیںاور ڈھلوان کی طرف اکٹھے ہوتے ہیں۔ جب تیز ہوا چل رہی ہو تو ریت کے ذروں کا ایک بادل چوٹی پر بنتا دکھائی دیتا ہے۔ یہ ہلالی ٹیلے عام طور پر ایک ہموار سطح پر ہوتے اور اسے گھیرتے نظرآتے ہیں۔ ریت اس وقت بھی اکٹھا ہونا شروع ہو جاتی ہے جب اس کے رستے میں کوئی چھوٹا سا پہاڑی پتھر یا کسی جھاڑی کی جڑ یا شاخ آجائے ۔ ایک مرتبہ جب خاصی ریت جُڑجائے تویہ نیچے کی جانب سرکنا شروع ہو جاتی ہے۔ عام طورپریہ ٹیلے ایک ایسی قطار یا زنجیر بناتے جاتے ہیںجو چلتی ہوا کی ڈھلوان کی طرف ہوتی ہے۔ زیر زمین 80فٹ کی گہرائی میں کڑوا پانی ملتا ہے۔ 4000ق م کے قرب وجوار میں چولستان کی وہ تہذیب جڑیں پکڑ رہی تھی جسے عام طور پر دریائے ہاکڑہ کی نسبت سے تہذیب وادیٔ ہاکڑہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ 1200ق م تک دریا رواں رہا۔ پھر 600ق م کے قریب اس کی روانی بے قاعدہ ہوئی اور اس کا وجود کرۂ ارض سے مٹ گیا۔ یہاں پھلنے پھولنے والی ہاکڑہ تہذیب انسانی تاریخ میں ایک طویل باب رکھنے والی تہذیب ہے۔ثقافتی ترقی کے حوالے سے اس تہذیب کا موازنہ میسو پوٹیمیائی، مصری اور بابلونی تہذیبوں سے کیا جا سکتا ہے۔ متنوع سیاسی و جغرافیائی عوامل اس عظیم تہذیب کے خاتمے کا باعث بنے۔ حقیقتاً یہی دراوڑی آبادی ہے جو ہاکڑہ تہذیب کے آثار میں اب تک باقی بچی ہوئی ہے۔ اسے وقتاً فوقتاً دلاور، ڈیرہ جٹ، ڈیرہ راول جیسے مختلف ناموں سے پکارا گیا ہے ۔لیکن اس کا اصل دراوڑی نام ’’دراوڑ‘‘ معدوم زمانوں سے زندہ چلا آرہا ہے۔ خشک ہو جانے والے دریائے ہاکڑہ کی گزرگاہ کے قریب عین چولستان کے وسط میں قلعہ دراوڑکے کھنڈرات ابھی تک موجود ہیں۔ دریائے ہاکڑہ یاگھگھرکے مٹ جانے کاعمل قبل ازتاریخ کے زمانوں میں وقوع پذیر ہوا۔ اس لیے پسِ پردہ جغرافیائی تبدیلیوں کوجاننے کے لیے شاید ہی کوئی نشانی بچا ہو۔ اس کے نتیجے میں بہاولپورریجن کادوتہائی حصہ بے آب وگیاہ ہوگیا۔ اپنے گم شدہ ماضی کی وجہ سے اس عظیم دریاکوآج بھی جغرافیہ دان ’’گم شدہ دریا‘‘کے نام سے یادرکھے ہوئے ہیں۔ رِگ وید کی حمدوں میں اسے ’’مقدس سرسوتی‘‘کے نام سے شناخت کیاگیاہے جو پہاڑوں سے سمندرتک جانے والا سب سے پوِتر دریا ہے۔ مہا بھارت میں اسے ’’دو اَوتار دریاؤں میں سے ایک‘‘ قرار دیا گیا ہے جو دھرماکھیسڑا (مقدس زمین)کی جنوبی سرحدتشکیل دیتا تھا۔پہلی آریائی آبادی اسی دریاکے کنارے آباد ہوئی تھی۔ چولستانی لوگوں کو مقامی طورپر روہیلے کہا جاتا ہے۔ ان کے بارے میں قیاس کیا جاتا ہے کہ وہ مستقل طو رپر آریاؤں، جٹوں، بلوچیوں اور ایرانیوں کے حملوںکی زد میں رہے تھے لیکن سماجی ڈھانچہ اب تک تبدیل نہیں ہوا ہے۔ دریائے ہاکڑہ کا صحرا میں بدل جانا بھی ایک ممکنہ وجہ ہے جس نے اس جگہ کوناقابل رہائش بنایا۔ مقامی روایات کے مطابق لفظ چولستان دراصل لفظ ’’چولی‘‘سے نکلا ہے۔ چولستانی خواتین گھاگھرے پر کَسی ہوئی مختصر چولی پہنتی ہیں جس کی شباہت ٹیلوں سے ملتی ہے۔ ’’جغرافیہ سندھ‘‘ میں ’’وچولو‘‘ (درمیانی) کو چولستان کا ماخذ بیان کیا جاتا ہے۔ چولستانی بزرگوں کا کہنا ہے کہ اس صحرا میں زور دار آندھیاں چلتی ہیںجس کی وجہ سے ریت کے ٹیلے حرکت میں رہتے ہیں۔ ان صحرائی ہواؤں کی وجہ سے وہ ایک سے دوسری جگہ منتقل ہوتے رہتے ہیں۔ 1945ء کی سلوی کلچر کانفرنس میں لیفٹیننٹ کرنل ویسٹ لینڈ نے سال 1870تا 1935ء کے درمیان ہونے والے ایک سروے پر مشتمل نقشہ پیش کیا گیا تھا۔ جس میں دکھایا گیا تھا کہ ریت کے ٹیلوں نے شمال مشرقی رُخ پر 65سال میں آدھ میل سفر کیا تھا۔1؎ لفظ ’’چولن‘‘ٹیلوں کی اسی حرکت کی کیفیت کی غمازی کرتا ہے۔ لہٰذاخیال کیا جاتا ہے کہ چولستان کا لفظ ’’چولن‘‘ سے مشتق ہے۔ایک خیال یہ بھی پیش کیا گیا ہے کہ لفظ’’ چھول‘‘سرائیکی میں لہر کے معنوں میں آتا ہے۔ صحرا کا منظر اس کی منظر کشی کرتا نظر آتا ہے۔ اس لیے ’’چھول‘‘سے ’’چھولیاں‘‘ کا لفظ صوتی یکسانی کی وجہ سے چولستان کے قریب ہے۔ لہٰذااس کا ماخذ یہ بھی ہوسکتاہے۔ تاریخ کی کتب میں چولستان کی مختلف وجوہاتِ تسمیہ بیان ہوئی ہیں جن کے مطابق لفظ ’’چولستان‘‘ترکی لفظ’’چول‘‘سے مشتق ہے جس کامطلب ہے صحرا۔جبکہ کچھ مؤرخ یقین رکھتے ہیں چولستان عراقی (کرد)لفظ’’چیلستان‘‘سے بگڑ کر بناہے جس کامعنی ہے بے آب و گیاہ علاقہ۔2؎ ’’روہی‘‘کے نام سے معروف چولستان کو ’’روہی‘‘ اسی تلفظ میں ادا کیا جاتا ہے جو اب بھی تبت کے کچھ علاقوں میں مروج ہے۔ یعنی ’’روہ‘‘ جس کا مطلب ہے’ ’پہاڑی‘‘ اور جس سے ’’روہیلا‘‘ کا نام اخذ کیا گیا ہے۔ اسی طرح سرائیکی میں، جو چولستان کے باشندوں کی ماں بولی ہے، ’’روہ‘‘ پہاڑ کو کہتے ہیں۔چونکہ چولستان پہاڑ نماٹیلوں سے بھرا پڑا ہے اس لیے اسے روہی کانام دیا گیا ہے۔ (کتاب ’’تاریخ ِضلع بہاولنگر-معدوم سے معلوم تک‘‘ ناشر: بُک ہوم،لاہور) ٭…٭…٭

1 comment: