Saturday, December 30, 2017

2017: دنیا بھر میں 68 صحافیوں کا قتل


2017: دنیا بھر میں 68 صحافیوں کا قتل
انٹرنیشنل نیوز سیفٹی انسٹیٹیوٹ (آئی این ایس آئی) کے مطابق رواں سال 2017 میں دنیا بھر میں 68 صحافیوں اور میڈیا نمائندوں کو قتل کیا گیا جن میں سے 9 خواتین بھی شامل ہیں۔
خیال رہے کہ 2016 میں 112 صحافیوں کا قتل کیا گیا تھا جن میں 3 خواتین شامل تھیں جبکہ 2015 میں 10 خواتین سمیت 101 صحافیوں کا قتل کیا گیا تھا۔
آئی این ایس آئی کے ڈائریکٹر ہنناہ اسٹورم کا کہنا تھا کہ گزشتہ آٹھ سالوں کے دوران مردوں کے مقابلے میں عورتوں کے قتل کے سب سے زیادہ واقعات رونما ہوئے۔
2017 میں کچھ انتہائی اہمیت کی حامل قتل ہونے والی خواتین میں کم وال بھی شامل ہیں جنہیں قتل کرنے کے بعد ان کی لاش کو کوپن ہیگن میں سمندر کے کنارے پھینک دیا گیا تھا۔
اس کے علاوہ کرد صحافی شفا گردی، بھارت کی گوری لنکیش، میکسیکو کی جنگ میں ہلاکتوں پر رپورٹ کرنے والی میروسلاوا بریچ شامل ہیں۔
کارڈف اسکول آف جرنلزم کی کتاب 'کلنگ دی میسینجر' جسے آئی این ایس آئی نے ترتیب دیا کے مطابق رواں سال صحافیوں کے لیے 5 سب سے خطرناک ممالک میں افغانستان، میکسیکو، عراق، شام اور فلسطین کا نام شمار کیا گیا ہے۔
رواں سال صحافیوں کے قتل کے واقعات گزشتہ سال سے کم تھے تاہم 68 افراد میں سے 32 افراد کا ایسے ممالک میں قتل کیا گیا جنہیں پر امن قرار دیا جاتا ہے۔
ان ممالک میں میکسیکو، بھارت اور مالٹا شامل ہیں۔
زیادہ تر قتل کے واقعات مقامی صحافیوں میں رونما ہوئے جو وہیں رہتے اور کام کرتے تھے اور انہیں اپنی ہی زمین پر قتل کیا گیا تھا۔
رواں سال چار شہری صحافیوں کا قتل کیا گیا جن میں سے تمام کا تعلق شام سے تھا جہاں میڈیا نمائندوں کے لیے کام کرنا سب سے مشکل بتایا جاتا ہے۔
آئی این ایس آئی کے مطابق 9 واقعات کے ملزمان کی شناخت کرتے ہوئے انہیں حراست میں لیا گیا اور ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جارہی ہے۔
ہنناہ اسٹورم کا کہنا تھا کہ ہم اپنے فرائض سر انجام دیتے ہوئے قتل ہونے والے ہر صحافی کو جنس، قومیت اور مذہب کی تفریق کے بغیر خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ رواں سال قتل ہونے والے 68 صحافیوں نے اپنے کام کی بھاری قیمت ادا کی ہے۔

Monday, December 18, 2017

سحرانگیزصحرا،چولستان ،رپورٹ ایم اقبال انجم سے

سحر انگیزصحرا

رپورٹ ایم اقبال انجم سے


وطن عزیز پاکستان قدرتی حسن کی دولت سے مالا مال ہے ۔تھر،تھل اور چولستان ہمارے ملک کے عظیم صحرا ہیں۔چولستان جو پاکستان کا سب سے بڑا صحرا ہے۔ مقامی زبان میں اسے روہی کہتے ہیں ۔ زرتشتا کی مقدس کتاب ’’اوستا‘‘ میں درج ہے۔ خالق کائنات نے جن علاقوں کو انسانی آبادی کے لیے منتخب کیا ان میں چولستان کا خطہ بھی شامل ہے۔صحرائے چولستان کی لمبائی 480کلو میٹر اور چوڑائی 23سے 192کلو میٹر ہے ۔ضلع بھاولپور ،رحیم یار خان اور ضلع بھاولنگر کے علاقوں میں پھیلا ہوا ہے ۔ڈویژن بھاولپور کا جائزہ لیا جائے تو اس کا دو تہائی حصہ 6.5ملین ایکڑچولستان صحرا پر مشتمل ہے ۔ چولستان کی تہذیب5ہزار قبل از مسیح سے تعلق رکھتی ہے۔ دیوار چین کی تعمیر کے وقت چولستانی تہذیب 5ہزار سال گزار چکی تھی ۔اس وقت صحرائے چولستان میں 1500قبل از مسیح سے لے کر 5000قبل از مسیح کے آثار موجود ہیں ۔جن کی تعداد 407ہے ۔آج دنیا 21ویں صدی سے گزر رہی ہے لیکن چولستان اور اسکے باسیوں کی حالت نہیں بدل سکی ۔ ۔ضلع بھاولنگر کے چولستان میں 46کلو میٹر ،ضلع بھاولپور میں 214کلو میٹراور ضلع رحیم یار خان میں 117کلو میٹر پائپ لائنوںکے ذریعے چولستانیوں کو آب رسائی کی جارہی ہے لیکن آب رسائی کا یہ بڑا منصوبہ بھی چولستان کے 1/3حصہ کی ضرورت کو پورا کرتا ہے بقیہ چولستان کے لوگوں کا انحصار ٹوبوں اورکنڈوں میں موجود پانی پرہے ۔ ہزاروں سال سے چولستان میں زندگی پانی اور سبزے کے گرد گھوم رہی ہے۔زیادہ تر چولستانیوں اور ان کے مویشیوں کی زندگی کا انحصارقدرت باری تعالیٰ کی طرف سے ہونے والی بارشوںکے پانی پر ہوتا ہے ۔چولستان میں بارش نعمت عظمیٰ سمجھی جاتی ہے ۔بارش کا پانی چولستان میں موجود ٹوبوں اور کنڈوں میں محفوظ کر لیا جاتا ہے ۔ چولستان میں موسم گرما کی تیز دھوپ ٹوبوں کے پانی کی دشمن سمجھی جاتی ہے کیونکہ چولستان کا درجہ حرارت موسم گرما میں 50درجے سینٹی گریڈ سے اوپر چلا جاتا ہے ۔ چولستان کی تعمیر و ترقی کے لیے 21 جولائی 1976کوچولستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے نام سے ایک ادارہ بنایا گیا اور اس کے اغراض و مقاصد کا تعین کیا گیا ۔ چولستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی اپنے قیام سے لے کر آج تک اپنے مقاصد کے حصول میں لگی ہوئی ہے۔ناکافی فنڈز کی وجہ سے اپنی منزل سے یہ ادارہ بہت دور ہے۔بنجر زمین کو قابل کاشت بنانا ۔سرکاری زمین کی الاٹ منٹ ، میٹھے پانی کا سروے کرنا،آب پاشی کے لیے ٹیوب ویل کی تنصیب،چولستان میں نئے قصبے اور چکوک کی تعمیر، مویشیوں کی دیکھ بھال ،علاج معالجہ اور تعلیم کی سہولتوں کی فراہمی ،پارکوں کی تعمیر اور سیر و سیاحت کو فروغ دیناسی ڈی اے کے بنیادی مقاصد ہیں ۔اپنے محدود بجٹ سے سی ڈی اے کام کر رہی ہے لیکن بجٹ کا زیادہ تر حصہ کرپشن اور کمیشن کی نظر ہو تا رہا ہے۔ چولستان میں زندگی بہت مشکل ہے اکثر مقامات پر انسان اور جانور ایک ہی ٹوبے سے پانی پیتے ہیں ۔ چولستان میں پختہ مکان نہیں ہیں ۔گھا س پھوس کی جھونپڑیاں کثرت سے موجود ہیںجو اپنے مکینوںکو بارش سے بچا سکتی ہیں نہ ہی دھوپ کی شدت سے ۔دھوپ کی شدت میں چولستانی اپنے مویشیوں کو چراتے ہیں اور میلوں ان کے ساتھ پیدل سفر کرتے ہیں۔جہاں ایک بھی سایہ دار درخت نہیں ہوتایہ لوگ تمازت آفتاب سے خود بھی جلتے ہیں اور اپنے مویشیوں کو بھی جلاتے ہیں۔ ٭…٭…٭

Sunday, December 17, 2017

چولستان کی کہانی ایم اقبال انجم کی زبانی

کڑواسچ،چولستان کی کہانی ایم اقبال انجم کی زبانیہم رپورٹ جلد ہی منظرعام پر لائی جارہی ہے،،،،ایم اقبال انجم سے
Image may contain: 2 people, text
بہاول پور(بیورورپورٹ ایم اقبال انجم سے)بہاول پورجو کہ ایک ریاست تھی جس کا شمار اسلامی ریاستوں میں بہت بڑی ریاست کے نام سے ہوتاتھاجب پاکستان بناتونواب آف بہاول پورنے ریاست کو بہاول پورمیں ضم کردیا مگر ایک شرائط بھی رکھی گئی کہ بہاول پور صوبہ ہوگا
آج پاکستان کو بنے ہوئے سالہاسال گزررہے ہیں مگر بہاول پور کی صوبائی حثیت تاحال بحال نہ کی گئی ہے افسوس کہ بہاول پورصوبہ تو بحال نہ ہوامگرایک ریاست پسماندہ ضرورہوگئی بہاول پورجوکہ تین اضلاع پر مشتمل ہے ایک ڈویثرن تک محدودہوچکا ہے ضلع رحیم یارخان ،ضلع بہاولنگر،اورضلع بہاول پور بیک ورڈ علاقوں میں شمار ہوتے ہیں بہاول پورمیں چولستانی علاقہ 65لاکھ 55ہزار365ایکڑ اراضی تک پھیلاہوایے صحراء تمام ترسہولیات سے محروم ہے چولستان میں کسی دور میں دریاء ہاکڑہ اوردریاء گھاگھرابہتاتھا اب ان کے نشانات بھی ختم ہوچکے ہیں ہرطرف ریت ہی ریت ہے جہاں پر دوردورتک پانی کا نام ونشان بھی نہ ہے چولستان میں تقریبا50قریب تاریخی قلعے تھے جوحکومتی عدم توجہی کی بناء پرمسمار ہوچکے ہیں جن میں صرف قلعہ ،ڈراور،قلعہ موج گڑھ،قلعہ،مروٹ،قلعہ اسلام گڑھ،اور قلعہ دین گڑھ کے نشانات باقی ہیں چولستان میں عرصہ دراز سے کچھ قومیں بھی اپنے جھونپڑے بناکر آباد ہیں چولستان میں ٹوبے بناکربارش کا پانی اکٹھا کرتے ہیں اور اپنے مویشی پال کر یے لوگ گزربسر کرتے ہیں،حکومت نے چولستانی کی ترقی کیلئے محکمہ چولستان ترقیاتی ادارہ کے نام سے ایک ادارہ بھی بنارکھا ہے جیسے ایک ایم ڈی کنٹرول کرتا ہے اس کا عملہ کافی ملازمین پر مشتمل ہے چولستان ترقیاتی ادارہ کوہرسال اربوں روپئے ورلڈ بنک اور ایشاترقیاتی بنک دیتا ہے جو حکومت پنجاب سے ہوکر یے فنڈز یہاں پہنچتے ہیں یے فنڈز چولستان میں چولستانی باشندوں کو میٹھا پانی مہیاء کرنے اور سڑکیں بجلی سمیت ان کو زندگی کی ہر سہولیات فراہم کرنے کیلئے دیے جاتے ہیں مگر یے چولستانی باشندوں کی بدقسمتی کہ لیں کہ چولستان ہرسہولیات سے محروم ہے اور اربوں روپئے کے فنڈ حکومتی کارندے چولستان ڈیویلپمنٹ اتھارٹی سے سازباز کر کے خردبرد کر لیے جاتے ہیں ،حقائق یے ہیں کہ چولستان ترقیاتی ادارہ نے کالے پاڑ سے لے کر ایک پختہ سڑک قلعہ موج گڑھ تک تعمیر کرائی جس کی لمبائی 30کلومیٹر تک ہے اس پر 95کروڑ روپئے خرچ کرنے کا سی ڈی اے نے دعویٰ کیا ہے ،اسی طرح خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے اپنے سابقہ ادوار میں چولستانی باشندوں کے مویشیوں کو خوراک مہیاء کرنے کیلئے 15لائیواسٹاک فارمز کی منظوری دی ایک فارم پر 10/9کروڑ تک کے فنڈز خرچ کرنے کا دعویٰ کیا گیا ایک قلعہ موج گڑھ پر 30مربعہ اراضی پر لوہے کی باڑ لگا کر چار پانچ کمروں اور چار شیڈ پر تعمیر ہونے والا لائیواسٹاک فارم پر9کروڑ روپئے کی لاگت آئی فارم تو بن گئے مگر نہ تو وہاں پر عملہ ہے اور نہ ہی مویشی ہیں ،اسی طرح ،چاپو والا،سالم سر،سمیت چولستان میں بنائے جانے والے فارم تباہی کے دہانے تک پہنچ چکے ہیں ان پر منظورہونے اربوں روپئے کے فنڈز بھی ہڑپ ہوچکے ہیں آج تک ان فارموں کی کوئی تحقیقات سامنے نہ آئی ہے ،ادھر چولستان کی ہزاروں ایکڑاراضی پر لینڈ مافیاء ممبران صوبائی اسمبلی اور قومی اسمبلی کی آشیرباد سے قابض ہوچکے ہیں اس موقع پر یزمان جانووالی کے نمبردار وں کے چیئرمین میاں عبدلحمید بھٹی شیرچولستان نے بتایا کہ لنیڈ مافیاء آئے روزیہاں کے چولستانی باشندوں کے مویشیوں کو چوری کرلیتے ہیں اور زبح کرکے کھاجاتے ہیں بعض مویشیوں کو گولی مارکرہلاک بھی کردیتے ہیں لینڈ مافیاء کے پاس خطرناک ناجائزاسلحہ اور اشتہاری جرائم پیشہ لوگ موجود ہیں ان لوگوں نے چولستان ،ٹھنڈی کھوئیاں،جانووالی،قلعہ موج گڑھ،سمیت متعددجگہوں پر ٹربائن،ٹیوب ویل لگارکھے ہیں جو شمسی توانائی کی پلیٹیں لگا رکھی ہیں ،میاں عبدالحمید بھٹی نے مزید بتایا کہ چولستان میں میٹھے پانی کی فراہی کیلئے نصب کیئے جانے والی پائپ لائن جگہ جگہ سے پھٹ گئی ہے ،کڈ والا سے موج گڑھ کو جانے والی پائپ لائن صرف دوکلومیٹر کے فاصلے سے جانووالی سے گزرتی ہے مگر آجتک جانووالی کو میٹھا پانی فراہم نہ ہوسکا ہے ہم نے بار بار جار وفود کی صورت میں ایم ڈی چولستان وسیم انورخان کو بتایا ہے مگر کوئی شنوائی نہ ہورہی ہے اسی طرح چولستان میں سالہاسالوں سے آباد چولستانی کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ،چولستان میں محکمہ امور حیوانات اور محکمہ صحت کی ڈسپنسریاں تو تعمیر کی گئی ہیں مگر آج تک عملہ موجود نہ ہے ان لاکھوں روپئے کی عمارتوں میں یاتوبکریاں بندھی ہیں یاپھروہاں پر لوگوں نے قبضے کر رکھے ہیں عملہ گھربیٹھے تنخواہیں لے رہا ہے ،چولستان میں تعلیم کا فقدان ہے ،اسکول نہ ہونے سے بچے تعلیم سے محروم ہوکر مویشی چرانے پر مجبور ہیں ،،بہت جلد چولستان کے بارے میں مذید انکشافات سامنے لائے جارہے ہیں،

Sunday, December 10, 2017

...یحییٰ خان نے بہاولپور کو اس کی پہچان سے محروم کیا، نواب صلاح الدین عباسی

 مزید شیئر

رپورٹ،ایم اقبال انجم سے

یحییٰ خان نے بہاولپور کو اس کی پہچان سے محروم کیا، نواب صلاح الدین عباسی

 قائداعظمؒ ہمارا عشق تھے: امیر آف بہاولپور نواب صلاح الدین عباسی کا ’’ایکسپریس‘‘ کو انٹرویو۔ فوٹو: ایکسپریس
 قائداعظمؒ ہمارا عشق تھے: امیر آف بہاولپور نواب صلاح الدین عباسی کا ’’ایکسپریس‘‘ کو انٹرویو۔ فوٹو: ایکسپریس
’’ پاکستان میرے گھر کا سامنے والا دروازہ ہے اور بھارت پچھلا دروازہ، ہر شریف آدمی اپنے گھر کے سامنے والے دروازے سے داخل ہوتا ہے، پچھلے دروازے سے نہیں‘‘ کسی بھی قیمت یا شرط پر بھارت میں شمولیت کے لئے منتیں کرنے والے پنڈت نہرو کو دیا جانے والایہ تاریخی جواب اس شخصیت کا ہے، جو اُس وقت کی خوشحال، ترقی یافتہ اور مستحکم ریاست بہاولپور کا نواب (سر صادق محمد خان عباسی پنجم) تھا۔ بہاولپور وہ پہلی ریاست ہے، جس نے کوئی شرط رکھے بغیر پاکستان سے الحاق کیا۔
ریاست بہاولپور نے اُس وقت پاکستان کا ساتھ دیا، جب بے سروسامانی کے عالم میں اس نومولود ملک کا اپنے پیروں پر کھڑا ہونا بھی دشوار ہو رہا تھا۔ روایات کے مطابق ریاست بہاولپور کے خزانے سے مملکت خدادا کو نہ صرف 70 ملین روپے امداد دی گئی بلکہ 6 ماہ تک ملک کے تمام سرکاری ملازمین کی تنخواہیں بھی ادا کی گئیں۔
شاطر ہندو بنیے کی وجہ سے پاکستان کو الگ ملک بننے پر وسائل میں سے جو حصہ ملنا تھا، اسے غصب کر لیا گیا، جس کے باعث نومولود مملکت کے پاس اپنی کرنسی بنانے کے لئے عالمی قانون کے مطابق سونے کے مطلوبہ ذخائر تک نہ تھے اور اُس وقت ایک بار پھر ریاست بہاولپور نے منوں کے حساب سے سونا سٹیٹ بنک آف پاکستان کے حوالے کیا۔
5 اکتوبر 1947ء کو ریاست بہاولپور پاکستان کا حصہ بنی، جسے 1952ء میں ایک معاہدے کے تحت صوبائی حیثیت دی گئی، لیکن ون یونٹ کے قیام کے وقت مغربی پاکستان کے باقی صوبوں سمیت اس کی صوبائی حیثیت کو ختم کر دیا گیا، تاہم 1970ء میں جب ون یونٹ سسٹم ختم کیا گیا تو تمام صوبے بحال ہو گئے، لیکن بہاولپور کی صوبائی حیثیت کو بحال کرنے کے بجائے اسے پنجاب میں ہی ضم کر دیا گیا، جس پر اس وقت بڑی زور دار تحریک بھی چلی، جس میں ہزاروں افراد کی گرفتاری کے ساتھ چند ہلاکتیں بھی ہوئیں، لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکی۔ پھر وقت گزرنے کے ساتھ صوبہ بحالی تحریک کبھی فعال تو کبھی غیرفعال ہوتی رہی۔
سابق ریاست بہاولپور کے امیر، نواب صلاح الدین عباسی ہیں، جو نواب سر صادق محمد خان عباسی پنجم کے پوتے ہیں۔ 29 جولائی 1946ء کو پیدا ہونے والے نواب صلاح الدین عباسی کے دو بچے پرنس بہاول عباس عباسی اور شہزادی عنیزہ عباسی ہیں، ان دونوں بچوں نے کینیڈا اور لندن کے تعلیمی اداروں سے ماسٹرز کی ڈگریاں حاصل کی ہیں۔ 5 بار رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے والے نواب صلاح الدین عباسی نے بھی صوبہ بحالی کے لئے سرگرم تحریک چلائی اور اب تک اسے زندہ رکھے ہوئے ہیں، مگر بیل آج تک منڈھے نہیں چڑھ سکی۔
مختلف ادوار میں آنے والی حکومتوں کی تمام تر زیادتیوں و ناانصافیوں کے باوجود نواب صلاح الدین عباسی اپنے دادا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے آج بھی خود کو پہلے پاکستانی پھر بہاولپوری کہلانے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ حکومت پاکستان کی طرف سے انہیں ’’امیر آف بہاولپور‘‘ کا خطاب 14 اپریل 1988ء کو ان کے والد سابق گورنر پنجاب نواب محمد عباس خان عباسی بہادر کی وفات کے بعد دیا گیا۔ خلافت عباسیہ کے شجرہ نسب سے تعلق رکھنے والے نواب آج بھی اپنے علاقہ کی ایک بااثر ترین سیاسی و سماجی شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ ’’ایکسپریس‘‘ نے سابق ریاست بہاولپور کے امیر نواب صلاح الدین عباسی کے ساتھ ماضی کی یادوں، حال کی سیاسی تلخیوں اور مستقبل کے لائحہ عمل کے حوالے سے ایک خصوصی نشست کا اہتمام کیا، جو نذر قارئین ہے۔
٭٭٭
ایکسپریس: تقسیم ہند سے قبل یہاں تقریباً ساڑھے پانچ سو ریاستیں تھیں، جن میں سے ایک ریاست بہاولپور بھی تھی، تو میرا سوال یہ ہے کہ وہ کون سے اقدامات تھے، جو اس ریاست کو دیگر ریاستوں سے ممتاز کرتے ہیں؟
نواب صلاح الدین عباسی: ریاست بہاولپور کا ایک امتیاز تو یہ ہے کہ جب انگریز یہاں آیا تو اس نے سکھوں سے تو ریاستیں لے لیں، لیکن جب 1830ء کی دہائی میں ہماری باری آئی تو انگریز نے کہا کہ ہم آپ سے الحاق کرنا چاہتے ہیں، ہم نے یہ کہا کہ الحاق کر لیتے ہیں، لیکن جو جوائنٹ فوج بنے گی، اس کی کمانڈ ہمارے پاس ہو گی، جس پر وہ راضی ہو گئے، تو یوں الحاق ہو گیا۔ وہ وقت ملکہ وکٹوریہ کا تھا، جس کے باعث ہمیں وہ خصوصی مراعات بھی دی گئیں، جو کسی دوسری ریاست کے پاس نہیں تھیں۔ آپ حیران ہوں گے کہ 1954ء میں بہاولپور کا لٹریسی ریٹ آج کے پاکستان سے بھی زیادہ تھا، آپ جائیں بہاولپور کی پبلک لائبریری میں تو آپ کو معلوم ہو گا۔ پھر جب تقسیم کا وقت آیا تو بہاولپور وہ پہلی ریاست تھی، جس نے قائداعظمؒ کو اپنا سب کچھ پلیٹ میں رکھ کر دے دیا کہ یہ لیں ہمارا سب کچھ آپ اور پاکستان کے لئے حاضر ہے۔ بہاولپور کا شمار برصغیر کی امیر ترین ریاستوں میں ہوتا تھا، جس نے مالی، فوجی، تنظیمی اور حکومتی سمیت تمام معاملات کو حضرت قائدؒ کی صوابدید پر چھوڑ دیا۔
ایکسپریس: سرکاری طور پر ’’نواب‘‘ کا ٹائٹل کب تک قائم دائم رہے گا؟ آپ کے بعد اسے بہاول عباسی کو ٹرانسفر کیا جائے گا؟
نواب صلاح الدین عباسی:نواب نہیں امیر آف بہاولپور ایک سرکاری ٹائٹل ہے۔ اس ٹائٹل کی نوازی پہلے برطانیہ کی صوابدید تھی، تاہم بعدازاں یہ اختیار پہلے ہندوستان اور اب حکومت پاکستان کے پاس ہے۔ میرے پاس امیر کا ٹائٹل ہے، جو میری موت تک ساتھ رہے گا، لیکن میرے بعد یہ سرکار کی مرضی ہے کہ وہ اسے پرنس بہاول عباس عباسی کو منتقل کرتی ہے یا نہیں۔ تاہم نواب کا ٹائٹل ہمارا خاندانی ہے، جسے ہمیں کسی سے لینے کی ضرورت نہیں۔ کوئی سرکار چاہے یا نہ چاہے بہاول عباسی بھی نواب ہے، لیکن ایک بات میں آپ کو بتا دوں یہ نوابی پھولوں کا بستر نہی بلکہ خطے کے لاکھوں عوام کی ذمہ داری ہے۔
ایکسپریس: بابائے قومؒ سے آپ کے دادا سر صادق محمد خان عباسی کے بڑے قریبی تعلقات تھے، تاریخ کے اوراق کی گواہی اپنی جگہ، ہم آپ کے منہ سے ان تعلقات کی بنیاد اور نوعیت جاننا چاہیں گے؟
نواب صلاح الدین عباسی:وہ ہمارے وکیل تھے، جنہوں نے دو تین معاملات میں ہمارے لئے بہت کچھ کیا۔ ایک بار برطانوی حکومت سے ہم نے بہت بڑا قرضہ مانگا، جس کا مقصد علاقہ کی ترقی و خوشحالی کے لئے منصوبے شروع کرنا تھا، ستلج ویلی پراجیکٹ بھی اس میں شامل تھا۔ اس پراجیکٹ کے ذریعے ہم سارے چولستان کو آباد کرنا چاہتے تھے۔ اس پراجیکٹ کے لئے مانگے جانے والے قرضہ کے حصول میں قائد نے ہمارا بھرپور ساتھ دیا۔ یوں ایک تو ہمارا ان سے پیشہ وارانہ تعلق تھا، لیکن اس سے بھی کہیں بڑھ کر قائداعظمؒ ہمارا عشق تھے۔ تحریک پاکستان کے دوران جب قائداعظمؒ انتھک محنت کر رہے تھے، تو اس وقت 1942ء میں میرے دادا نے انہیں کراچی خط بھی لکھا کہ “If your dream of our pakistan does not materialise, Bahawalpur is your Pakistan today.” اور پھر ایسا ہوا بھی یعنی 47ء اور 55ء کے درمیان ون یونٹ بننے سے پہلے ہم نے بہاولپور وہ پاکستان بنایا، جو قائدؒ کا خواب تھا، جو وہ چاہتے تھے کہ پاکستان ایسا ہو گا۔ مذکورہ عرصہ کے دوران اردو کو قومی زبان بنایا گیا، صوبائی الیکشن ہو چکے تھے، جمہوریت چل رہی تھی، بہاولپور کو ایک فلاحی و جمہوری ریاست بنایا گیا، جہاں مفت تعلیم و صحت، زراعت، آبپاشی، ذراؤ مواصلات سمیت زندگی کی تمام سہولیات عوام کو میسر تھیں۔ پاکستان میں سب سے زیادہ بہاولپور میں فی کس آمدن تھی۔
ایکسپریس: لیکن اس وقت تو ریاست بہاولپور پاکستان میں ضم ہو چکی تھی؟
نواب صلاح الدین عباسی:1947ء کے بعد بہاولپور ریاست پہلے وفاق پاکستان کی اکائی تھی، جو 1952ء میں صوبائی حیثیت اختیار کر گئی۔ مرکزی شعبوں کے علاوہ تمام حکومتی امور میرے دادا کے پاس تھے۔ پھر 1955ء میں پاکستان کی ترقی کے نام پر مغربی پاکستان کے باقی صوبوں کے ساتھ بہاولپور کو بھی باقاعدہ طور پر ون یونٹ میں ضم کر دیا گیا۔
ایکسپریس:تقسیم کے وقت نہرو نے بہاولپور کو بھارت میں شامل کرنے کے لئے بڑا زور لگایا، کھلی آفریں بھی دیں، لیکن پھر بھی ریاست بہاولپور کے سربراہ نے اسے پاکستان میں ہی کیوں شامل کیا اور پاکستان سے کیا شرائط طے پائیں؟
نواب صلاح الدین عباسی:جو پاکستان کے لئے ریاست بہاولپور نے کیا، میں اس کا ذکر نہیں کروں گا، کیوں کہ اس کا ذکر میرے دادا نے بھی نہیں کیا تھا۔ ہاں البتہ یہ بات درست ہے کہ بھارت نے ہمیں ہر طرح کی پیشکش کی، یہاں تک کہ ہماری الگ ریاستی و حکومتی حیثیت کو بھی برقرار رکھنے کی یقین دہانیاں کروائی گئیں، لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ ریاست بہاولپور نے پاکستان کے لئے جو کچھ کیا، وہ اس خطے کے مسلمانوں کے لئے تھا، لیکن ان سب چیزوں کے عوض ہم نے صرف دو چیزیں مانگی تھیں، ایک بہاولپور میں اپنی پہچان دوسرا یہاں کے عوام کی فلاح و بہبود، یعنی ہمارا مطالبہ صرف اچھی حکومت کا تسلسل تھا، کیوں کہ پاکستان کے ساتھ الحاق سے قبل بہاولپور کی پہچان ایک فلاحی ریاست کی تھی، جہاں تعلیم و صحت کی سہولیات بالکل مفت تھیں، ہر شخص کو سستا اور فوری انصاف میسر تھا، روزگار کے مسائل نہیں تھے، لوگوں کا معیار زندگی بہت اچھا تھا، مگر مجھے افسوس ہے کہ یحییٰ خان نے بہاولپور سے اس کی پہچان چھین لی، یہ صرف ہم سے ناانصافی نہیں تھی بلکہ قائداعظمؒ کے وعدے سے بھی انحراف تھا۔ غلام محمد اور یحییٰ خان نے یہاں کے لوگوں سے خوشیاں اور خوشحالی چھین کر انہیں غربت، پستی اور جہالت کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل دیا۔
ایکسپریس: ون یونٹ کے تحت بہاولپور کی صوبائی حیثیت ختم ہوئی تو پھر 70ء میں دیگر صوبوں کی طرح اس صوبے کو بحال نہ کرنے کا جواز کیا بنا؟
نواب صلاح الدین عباسی:کوئی جواز تھا ہی نہیں تو بیان کیا کیا جانا تھا۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ 1955ء میں پاکستان کے ساتھ ناانصافی کرتے ہوئے سیاسی مفاد کے لئے سب صوبوں کو ون یونٹ بنایا گیا، لیکن پھر ون یونٹ ٹوٹنے کے بعد یحییٰ خان نے ظلم کرتے ہوئے بہاولپور کو ایل ایف او (لیگل فریم ورک آرڈر) کے ذریعے کسی جواز کے بغیر غیر قانوی و غیر آئینی طور پر پنجاب میں ضم کر دیا۔
ایکسپریس: حکومتی وعدوں، نعروں، قراردادوں سے قطع نظر، صوبہ بحالی کی تحریک کیا قصہ پارینہ بن چکی یا کبھی یہ خواب پورا ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے؟
نواب صلاح الدین عباسی:کیوں نہیں! انشاء اللہ بہاولپور صوبہ ضرور بحال ہو گا، جس کے لئے یہاں کی بہاول جیسی نوجوان نسل کو اب آگے آنا پڑے گا، کیوں کہ ہمیں بڑی سیاسی جماعتوں سے تو مایوسی ہوتی چلی جا رہی ہے، مگر اپنے اللہ تعالی اور یہاں کے عوام کی جدوجہد سے ابھی بھی میں پرامید ہوں کہ بہاولپور صوبہ جلد بحال ہو جائے گا، ہماری محنتیں رنگ لائیں گی۔
ایکسپریس: ہر الیکشن میں بڑی بڑی سیاسی پارٹیاں یہاں سے صوبہ بحالی کے نام پر ووٹ حاصل کرتی ہیں، آپ کے خیال میں ان میں سے کوئی صوبہ بحالی میں سنجیدہ بھی ہے؟
نواب صلاح الدین عباسی:پہلی بات تو یہ ہے کہ گزشتہ چالیس پچاس سال میں تو کسی کو ہماری یاد بھی نہیں آئی، لیکن جب ہم نے خود اس تحریک کو آگے بڑھایا تو پھر پیپلزپارٹی بھی آئی، ن لیگ نے صوبہ بحالی کو اپنے منشور کا باقاعدہ حصہ بنانے کا اعلان کیا اور پھر اسی بنیاد پر یہاں سے ووٹ بھی لیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ صوبہ بحالی کے حوالے سے کسی بڑی سیاسی جماعت کی نیت درست نہیں، اگر ایسا ہوتا تو پھر گزشتہ دور حکومت کے اواخر میں بڑا سنہری موقع تھا، کیوں کہ اسمبلی سے قرارداد بھی پاس ہو چکی تھی، لیکن افسوس! یہ صرف الیکشن سٹنٹ تھا، کیوں کہ یہاں صوبہ بحالی کے علاوہ کسی طور بھی کوئی جیت نہیں سکتا۔
ایکسپریس: کیا بہاولپور صوبہ بحالی کے علاوہ کسی اور آپشن پر متفق ہوا جا سکتا ہے، کیوں کہ یہاں سرائیکی صوبہ اور جنوبی پنجاب صوبہ کی باتیں بھی ہو رہی ہیں؟
نواب صلاح الدین عباسی:دیکھیں! یہ صرف سیاسی نعرے ہیں، ایک بڑی سیاسی جماعت نے بہاولپور صوبہ کا نعرہ لگایا، دوسری نے جنوبی پنجاب صوبہ کا سٹنٹ چھوڑ دیا، جس میں بہاولپور کو بھی شامل کرنے کا کہا جا رہا ہے، لیکن بہاولپور صوبہ بحالی یہاں کے عوام کا سب سے بڑا اور دیرینہ مطالبہ ہے، بلکہ میں تو یوں کہوں گا کہ صرف ایک ہی مطالبہ ہے، کیوں کہ ہم جانتے ہیں کہ جس روز یہ مطالبہ پورا ہو گیا، اس روز پھر سے خطے کے عوام کی حالت زار بدلنے لگے گی، انہیں وہی دور پھر مل جائے گا، جو پاکستان کے قیام سے قبل تھا، جہاں تعلیم، صحت کے علاوہ بچوں کی خوراک تک مفت تھی۔ یہاں میں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ اگر یہ ملک درست سمت پر ہوتا تو ہمارا نظام پورے ملک پر لاگو کرکے قوم کو خوشحال بنایا جاتا، لیکن یہاں تو ہمیں ہی تباہ کیا جا رہا ہے۔ 1960ء میں بھارت کے ساتھ جب سندھ طاس معاہدہ ہوا تو آپ نے اسے ستلج دے دیا اور ہمیں پوچھا تک نہیں، حالاں کہ آپ جانتے تھے کہ ہمارا ذریعہ معاش ہے ہی ستلج، اسی کے ذریعے تو ہماری زمینیں سیراب ہوتی تھیں۔
ایکسپریس: تمام تر کوششوں کے باوجود اگر صوبہ بہاولپور بحال نہیں ہوتا تو آپ کا انتہائی اقدام کیا ہو سکتا ہے؟
نواب صلاح الدین عباسی:دیکھیں! ہم جمہوری طریقے سے اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں، جو انشاء اللہ اس وقت تک جاری رہے گی، جب تک بہاولپور کے عوام کا یہ دیرینہ مطالبہ پورا نہیں ہو جاتا۔ پاکستان سے جو ہماری کمٹمنٹ ہے، میرے دادا کی جو اس ملک سے محبت ہے، وہ ہمیں کسی ایسے انتہائی اقدام تک جانے نہیں دیتی، جس سے ملک کو نقصان ہو۔ ہیڈ سلیمانیکی، ہیڈ اسلام اور ہیڈ پنجند ریاست بہاولپور نے اپنے خرچ بنائے، جن کا پانی سب استعمال کرتے ہیں۔ کراچی سے بہاولپور ریلوے ڈبل لائن میرے دادا نے بنائی۔
دیکھیں بھائی! ہم اس ملک کی ریڑھ کی ہڈی ہیں، ہم نے یہ ملک بنایا ہے۔ آپ ذرا تاریخ کو پڑھیں کہ بہاولپور کے بغیر پاکستان کا وجود نہیں بن رہا تھا، میرے پاس دستاویزی ثبوت ابھی بھی پڑے ہیں۔ پاکستان ہمارا ہے، اس کے لئے ہم نے جان لگا دی، آپ کے پاس قلم تو تھی لیکن سیاہی ہم نے دی، اور یہ بھی کہہ دوں کہ یہ کوئی احسان نہیں تھا، میرے پیسے اور آپ کے پیسے میں کوئی فرق نہیں تھا، پیسوں کو پیر تو اب 50 سال بعد بنایا گیا ہے۔ ہم وہ پاکستانی ہیں، جنہوں نے اسے بنانے کے لئے اپنا سب کچھ نچھاور کر دیا، باقیوں نے کیا دیا؟ ہمیں صوبہ دے دو یا مجھے گرفتار کر لو، مجھے اپنے لئے کچھ نہیں چاہیے، میں یہ جوا کھیلنے کے لئے بھی تیار ہوں۔ ہم سیاسی اور جمہوری طریقے سے ہی اپنا مقصد حاصل کرنے کی تگ و دو کر رہے ہیں، ہم لڑ رہے ہیں اور لڑتے رہیں گے۔ 1970ء میں تو ہزاروں گرفتاریوں اور ہلاکتوں کے باوجود ہم نے صبر کا دامن نہیں چھوڑا، تو اب ایسا کیوں کر کر سکتے ہیں، لیکن میں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ لوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز نہ کرو۔ میں آج بھی پرامید ہوں کہ صوبہ ضرور بحال ہو گا۔
ایکسپریس: کیا آپ کو کبھی اپنے اس مطالبے سے ہٹنے کے لئے کوئی لالچ یا دبائو بھی دیا گیا، یا پھر سے کوئی وعدہ کیا جا رہا ہے؟
نواب صلاح الدین عباسی:مجھے تو وزیراعلی بنانے کی آفرز بھی دی گئیں، ہم نے تو خود حکومتیں بنائی ہیں، مجھے کسی چیز کا اب لالچ نہیں رہا، میں سب کچھ دیکھ چکا ہوں۔ خدارا! میرا غریب تو بھوک سے مر رہا ہے، مجھے اپنے لئے نہیں، ان کے لئے ان کا حق چاہیے، ان کے مسائل حل کرو۔ اب ہم کسی وعدے پر اعتبار نہیں کر سکتے، خطے کے عوام ایسے وعدوں کے لئے تیار نہیں، کیوں کہ وہ یہ سن سن کر تھک چکے ہیں۔ یہاں کوئی وعدہ نبھانے والا رہا ہی نہیں۔ آج قائداعظمؒ کی سوچ کہیں نظر نہیں آتی، ان کی وفات کے ساتھ ہی ان کی باتوں اور وعدوں کو بھی بھلا دیا گیا۔
ایکسپریس: صوبہ بحالی کے بعد یہاں کے لوگوں کی حالت زار کیسے بہتر بنائی جا سکے گی؟
نواب صلاح الدین عباسی:مجموعی طور پر پورا ملک ہی معاشی تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے، جس کی وجہ چند لوگوں کی مفاد پرست پالیسیاں تھیں۔ صوبہ بحالی کی صورت میں اس خطہ کی معیشت کو بچایا جا سکتا ہے اور ہم ایسا کرکے دکھائیں گے۔ سب سے پہلے تو آپ دیکھ لیں کہ یہاں کوئی انڈسٹری نہیں ہے، یہاں کپاس اور گنے کی صورت بہت زیادہ مقدار میں خام مال پیدا ہوتا ہے، لیکن وہ خام مال یہاں ہی پراسیس ہونے کے بجائے باہر بھجوا دیا جاتا ہے۔ ستلج کا پانی بھارت کو دینے سے یہاں کی زرخیز زمینیں بنجر ہو رہی ہیں، کسان بدحالی کا شکار ہے۔
ہم پانی کی اس کمی کو پورا کر سکتے ہیں۔ جب سندھ طاس معاہدہ ہوا تو ستلج کے عوض یہاں کے لوگوں کے لئے دو بڑی نہریں اور ایک چھوٹی نہر خصوصی طور پر بہاولپور کے لئے دینے کا وعدہ کیا گیا، لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ اچھا رہی بات ہماری تو، میں چولستان سے پانی نکال سکتا ہوں، ہم نے سیٹلائٹ امیجنگ کی ہوئی ہے کہ کہاں کہاں میٹھے پانی کے ذخائر ہیں۔ دوسرا تیل کی ضرورت پوری کرنے کے لئے jatropha (ایک پودا) کو استعمال کیا جائے گا، جو خالص ڈیزل دے سکتا ہے، لیکن بدقسمتی سے اسے یہاں استعمال ہی نہیں کیا جا رہا۔
ایکسپریس: آئندہ الیکشن کے لئے کوئی حکمت عملی مرتب کرنا شروع کی گئی ہے یعنی کسی دوسری سیاسی جماعت کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہو گی یا صرف اپنے زورِ بازو پر الیکشن لڑا جائے گا؟
نواب صلاح الدین عباسی:ہماری روایت ہے کہ امیر آف بہاولپور جو بھی ہو اس کے لئے پورے خطے کے بیٹے اور بیٹیاں اس کے اپنے بچے تصور ہوتے ہیں۔ بہاولپور میں رہنے والی مقامی آبادی اور آباد کار جنہیں میرے دادا خصوصی درخواست کرکے اس خطے کو خوشحال بنانے کے لئے لائے تھے، ہندوستان سے آنے والے مہاجرین، جن کے لئے ہم دیدہ و دل فرش راہ کئے ہوئے تھے، گویا اس خطے میں بسنے والا ہر فرد، بچہ مجھے بہاول عباس عباسی کی طرح عزیز ہے۔ میری زندگی کا محور و مرکز انہی لوگوں کی فلاح و بہبود ہے، لیکن میں یہاں آپ کے ادارے کے توسط سے بہاول عباسی اور پورے بہاولپور کے نوجوانوں کو یہ پیغام دینا چاہوں گا کہ میں اب عمر رسیدہ ہو چکا ہوں، میرا اکلوتا بھائی انتقال کر چکا ہے، بہاول اور بہاولپور کے تمام نوجوانوں کو اب صوبہ کی بحالی اور اس خطے کے مکینوں کو غربت، جہالت سمیت تمام مصائب سے نکالنے کی جدوجہد جاری رکھنا ہو گی، پاکستان کی ترقی، خوشحالی اور خطہ بہاولپور کی پہچان کی بحالی ہماری جدوجہد کا مطمع نظر رہنی چاہیے۔ میری سیاست کا اختتام ہو چکا، میں آج سیاست سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کرتا ہوں، اب یہ ذمہ داری شہزادہ بہاول عباسی اور بہاولپور کے نوجوانوں کو نبھانا