وطن عزیز پاکستان قدرتی حسن کی دولت سے مالا مال ہے ۔تھر،تھل اور چولستان ہمارے ملک کے عظیم صحرا ہیں۔چولستان جو پاکستان کا سب سے بڑا صحرا ہے۔ مقامی زبان میں اسے روہی کہتے ہیں ۔ زرتشتا کی مقدس کتاب ’’اوستا‘‘ میں درج ہے۔ خالق کائنات نے جن علاقوں کو انسانی آبادی کے لیے منتخب کیا ان میں چولستان کا خطہ بھی شامل ہے۔صحرائے چولستان کی لمبائی 480کلو میٹر اور چوڑائی 23سے 192کلو میٹر ہے ۔ضلع بھاولپور ،رحیم یار خان اور ضلع بھاولنگر کے علاقوں میں پھیلا ہوا ہے ۔ڈویژن بھاولپور کا جائزہ لیا جائے تو اس کا دو تہائی حصہ 6.5ملین ایکڑچولستان صحرا پر مشتمل ہے ۔ چولستان کی تہذیب5ہزار قبل از مسیح سے تعلق رکھتی ہے۔ دیوار چین کی تعمیر کے وقت چولستانی تہذیب 5ہزار سال گزار چکی تھی ۔اس وقت صحرائے چولستان میں 1500قبل از مسیح سے لے کر 5000قبل از مسیح کے آثار موجود ہیں ۔جن کی تعداد 407ہے ۔آج دنیا 21ویں صدی سے گزر رہی ہے لیکن چولستان اور اسکے باسیوں کی حالت نہیں بدل سکی ۔ ۔ضلع بھاولنگر کے چولستان میں 46کلو میٹر ،ضلع بھاولپور میں 214کلو میٹراور ضلع رحیم یار خان میں 117کلو میٹر پائپ لائنوںکے ذریعے چولستانیوں کو آب رسائی کی جارہی ہے لیکن آب رسائی کا یہ بڑا منصوبہ بھی چولستان کے 1/3حصہ کی ضرورت کو پورا کرتا ہے بقیہ چولستان کے لوگوں کا انحصار ٹوبوں اورکنڈوں میں موجود پانی پرہے ۔ ہزاروں سال سے چولستان میں زندگی پانی اور سبزے کے گرد گھوم رہی ہے۔زیادہ تر چولستانیوں اور ان کے مویشیوں کی زندگی کا انحصارقدرت باری تعالیٰ کی طرف سے ہونے والی بارشوںکے پانی پر ہوتا ہے ۔چولستان میں بارش نعمت عظمیٰ سمجھی جاتی ہے ۔بارش کا پانی چولستان میں موجود ٹوبوں اور کنڈوں میں محفوظ کر لیا جاتا ہے ۔ چولستان میں موسم گرما کی تیز دھوپ ٹوبوں کے پانی کی دشمن سمجھی جاتی ہے کیونکہ چولستان کا درجہ حرارت موسم گرما میں 50درجے سینٹی گریڈ سے اوپر چلا جاتا ہے ۔ چولستان کی تعمیر و ترقی کے لیے 21 جولائی 1976کوچولستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے نام سے ایک ادارہ بنایا گیا اور اس کے اغراض و مقاصد کا تعین کیا گیا ۔ چولستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی اپنے قیام سے لے کر آج تک اپنے مقاصد کے حصول میں لگی ہوئی ہے۔ناکافی فنڈز کی وجہ سے اپنی منزل سے یہ ادارہ بہت دور ہے۔بنجر زمین کو قابل کاشت بنانا ۔سرکاری زمین کی الاٹ منٹ ، میٹھے پانی کا سروے کرنا،آب پاشی کے لیے ٹیوب ویل کی تنصیب،چولستان میں نئے قصبے اور چکوک کی تعمیر، مویشیوں کی دیکھ بھال ،علاج معالجہ اور تعلیم کی سہولتوں کی فراہمی ،پارکوں کی تعمیر اور سیر و سیاحت کو فروغ دیناسی ڈی اے کے بنیادی مقاصد ہیں ۔اپنے محدود بجٹ سے سی ڈی اے کام کر رہی ہے لیکن بجٹ کا زیادہ تر حصہ کرپشن اور کمیشن کی نظر ہو تا رہا ہے۔ چولستان میں زندگی بہت مشکل ہے اکثر مقامات پر انسان اور جانور ایک ہی ٹوبے سے پانی پیتے ہیں ۔ چولستان میں پختہ مکان نہیں ہیں ۔گھا س پھوس کی جھونپڑیاں کثرت سے موجود ہیںجو اپنے مکینوںکو بارش سے بچا سکتی ہیں نہ ہی دھوپ کی شدت سے ۔دھوپ کی شدت میں چولستانی اپنے مویشیوں کو چراتے ہیں اور میلوں ان کے ساتھ پیدل سفر کرتے ہیں۔جہاں ایک بھی سایہ دار درخت نہیں ہوتایہ لوگ تمازت آفتاب سے خود بھی جلتے ہیں اور اپنے مویشیوں کو بھی جلاتے ہیں۔ ٭…٭…٭
Monday, December 18, 2017
سحرانگیزصحرا،چولستان ،رپورٹ ایم اقبال انجم سے
وطن عزیز پاکستان قدرتی حسن کی دولت سے مالا مال ہے ۔تھر،تھل اور چولستان ہمارے ملک کے عظیم صحرا ہیں۔چولستان جو پاکستان کا سب سے بڑا صحرا ہے۔ مقامی زبان میں اسے روہی کہتے ہیں ۔ زرتشتا کی مقدس کتاب ’’اوستا‘‘ میں درج ہے۔ خالق کائنات نے جن علاقوں کو انسانی آبادی کے لیے منتخب کیا ان میں چولستان کا خطہ بھی شامل ہے۔صحرائے چولستان کی لمبائی 480کلو میٹر اور چوڑائی 23سے 192کلو میٹر ہے ۔ضلع بھاولپور ،رحیم یار خان اور ضلع بھاولنگر کے علاقوں میں پھیلا ہوا ہے ۔ڈویژن بھاولپور کا جائزہ لیا جائے تو اس کا دو تہائی حصہ 6.5ملین ایکڑچولستان صحرا پر مشتمل ہے ۔ چولستان کی تہذیب5ہزار قبل از مسیح سے تعلق رکھتی ہے۔ دیوار چین کی تعمیر کے وقت چولستانی تہذیب 5ہزار سال گزار چکی تھی ۔اس وقت صحرائے چولستان میں 1500قبل از مسیح سے لے کر 5000قبل از مسیح کے آثار موجود ہیں ۔جن کی تعداد 407ہے ۔آج دنیا 21ویں صدی سے گزر رہی ہے لیکن چولستان اور اسکے باسیوں کی حالت نہیں بدل سکی ۔ ۔ضلع بھاولنگر کے چولستان میں 46کلو میٹر ،ضلع بھاولپور میں 214کلو میٹراور ضلع رحیم یار خان میں 117کلو میٹر پائپ لائنوںکے ذریعے چولستانیوں کو آب رسائی کی جارہی ہے لیکن آب رسائی کا یہ بڑا منصوبہ بھی چولستان کے 1/3حصہ کی ضرورت کو پورا کرتا ہے بقیہ چولستان کے لوگوں کا انحصار ٹوبوں اورکنڈوں میں موجود پانی پرہے ۔ ہزاروں سال سے چولستان میں زندگی پانی اور سبزے کے گرد گھوم رہی ہے۔زیادہ تر چولستانیوں اور ان کے مویشیوں کی زندگی کا انحصارقدرت باری تعالیٰ کی طرف سے ہونے والی بارشوںکے پانی پر ہوتا ہے ۔چولستان میں بارش نعمت عظمیٰ سمجھی جاتی ہے ۔بارش کا پانی چولستان میں موجود ٹوبوں اور کنڈوں میں محفوظ کر لیا جاتا ہے ۔ چولستان میں موسم گرما کی تیز دھوپ ٹوبوں کے پانی کی دشمن سمجھی جاتی ہے کیونکہ چولستان کا درجہ حرارت موسم گرما میں 50درجے سینٹی گریڈ سے اوپر چلا جاتا ہے ۔ چولستان کی تعمیر و ترقی کے لیے 21 جولائی 1976کوچولستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے نام سے ایک ادارہ بنایا گیا اور اس کے اغراض و مقاصد کا تعین کیا گیا ۔ چولستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی اپنے قیام سے لے کر آج تک اپنے مقاصد کے حصول میں لگی ہوئی ہے۔ناکافی فنڈز کی وجہ سے اپنی منزل سے یہ ادارہ بہت دور ہے۔بنجر زمین کو قابل کاشت بنانا ۔سرکاری زمین کی الاٹ منٹ ، میٹھے پانی کا سروے کرنا،آب پاشی کے لیے ٹیوب ویل کی تنصیب،چولستان میں نئے قصبے اور چکوک کی تعمیر، مویشیوں کی دیکھ بھال ،علاج معالجہ اور تعلیم کی سہولتوں کی فراہمی ،پارکوں کی تعمیر اور سیر و سیاحت کو فروغ دیناسی ڈی اے کے بنیادی مقاصد ہیں ۔اپنے محدود بجٹ سے سی ڈی اے کام کر رہی ہے لیکن بجٹ کا زیادہ تر حصہ کرپشن اور کمیشن کی نظر ہو تا رہا ہے۔ چولستان میں زندگی بہت مشکل ہے اکثر مقامات پر انسان اور جانور ایک ہی ٹوبے سے پانی پیتے ہیں ۔ چولستان میں پختہ مکان نہیں ہیں ۔گھا س پھوس کی جھونپڑیاں کثرت سے موجود ہیںجو اپنے مکینوںکو بارش سے بچا سکتی ہیں نہ ہی دھوپ کی شدت سے ۔دھوپ کی شدت میں چولستانی اپنے مویشیوں کو چراتے ہیں اور میلوں ان کے ساتھ پیدل سفر کرتے ہیں۔جہاں ایک بھی سایہ دار درخت نہیں ہوتایہ لوگ تمازت آفتاب سے خود بھی جلتے ہیں اور اپنے مویشیوں کو بھی جلاتے ہیں۔ ٭…٭…٭
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment